1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان میں قوالی دم توڑ دے گی؟

26 اپریل 2018

پاکستان میں معروف پاکستانی قوال امجد صابری کے قتل کے بعد فرقہ پرستی کے خوف اور جدیدیت کے دباو میں صوفی موسیقی کی صنف قوالی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ 

https://p.dw.com/p/2wjme
Ungarn Konzert Amjad Sabri
تصویر: Daniel Zafir

دنیا بھر میں پاکستان کی قومی شناخت کا حصہ سمجھی جانے والی موسیقی کی اس صنف کو ملک میں 1970ء کی دہائی میں اس وقت  عروج حاصل ہوا، جب امجد صابری کے والد غلام فرید صابری اور ان کے برادر کی جوڑی جسے عرف عام میں صابری برادران کے نام سے پہچانا جاتا تھا ، ملک کے ایک اور نامور قوال نصرت فتح علی خان کے ہمراہ عالمی سطح پر سامعین کو قوالی سے روشناس کرواتے ہوئے اسے دوام بخش رہے تھے۔

غلام فرید صابری کی موت کے بعد امجد صابری نے ان کی گدی سنبھالی اور دھیرے دھیرے ملک کے نامور قوالوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ تاہم دو برس قبل امجد صابری کے قتل نے قوالی سے منسلک موسیقاروں میں خوف اور پریشانی کو جنم دیا جس کے باعث صوفی موسیقی کی یہ صنف ایک بار پھر زوال پذیر نظر آرہی ہے۔

Pakistan Grab von Shah Rukn-e-Alam in Multan
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza

برسوں سے کراچی کے کیفے نور پر قوالوں کی بیٹھکیں جمتی چلی آرہی ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے یہاں موجود چند قوالوں کا کہنا تھا کہ کچھ برسوں سے ان کا کاروبار مستقل زوال کا شکار ہے اور اب نہایت کم مزار یا درگاہیں ایسی ہیں جہاں قوالی کی محفل سجانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔  اس کی ایک وجہ چند گروہوں کی طرف سے  کی جانے والی فرقہ پرست عسکری کارروائیاں ہیں جن کے تحت مزاروں کو خود کش حملوں کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ اس کی مثال امجد صابری کے قتل کے بعد صوبہ سندھ اور بلوچستان کے مزاروں پر کیے جانے والے خود کش حملے تھے جن میں سو سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ ان کارروائیوں کی زمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی تھی۔

Nusrat Fateh Ali Khan
نامور قوال نصرت فتح علی خان کی قوالی کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیںتصویر: AP

فن قوالی آج پھر کسی نصرت فتح علی خان کا منتظر ہے

صوفی قوال امجد صابری کا قتل، عالمی سطح پر نامور قوال کو خراج عقیدت

تاہم صرف خوف کا عنصر ہی نہیں جو ملک میں قوالی کی تنزلی کا سبب بن رہا ہے۔ ہاشم علی نامی ایک قوال کے مطابق اچھے وقتوں میں ایک غریب شخص بھی قوالی کی محفل کا انتظام کر لیتا تھا مگر مہنگائی کے اس دور میں اگر قسمت ساتھ دے تو وہ مذہبی مواقع پر اب انتہائی کم منعقد کی گئی چار سے پانچ محافل میں ہی پرفارم کر پاتے ہیں۔

ان حالات کے باوجود چند قوال اس صنف کی بقاء کے لیے  اب بھی کوشاں ہیں۔ ان ہی میں امجد صابری کے بھائی طلحہ صابری بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہر طرح کے دباو اور خطروں کے  سامنے وہ نہیں جھکیں گے اور اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ تاہم امجد صابری کی والدہ کے بقول ایک بات طے ہے کہ امجد صابری جا چکا ہے اور اس کے ساتھ قوالی کا جنون بھی دفن ہو گیا ہے۔   

ع ف/ ا ا ( اے ایف پی)