یمن سے ہزاروں اماراتی فوجیوں کی واپسی
25 جولائی 2019متحدہ عرب امارات سعودی عرب کی قیادت میں قائم اسلامی فوجی اتحاد کا اہم رکن ہے اور یمن کی پانچ سالہ لڑائی میں پیش پیش رہا ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق اُس کا یہ فیصلہ سعودی فوجی اتحاد کو ممکنہ طور پر کمزور کر سکتا ہے۔
حکومتِ امارات نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بدستور سعودی فوجی اتحاد کا حصہ ہے لیکن اس کی خواہش ہے کہ یمن کے سیاسی حل کے لیے اب مذاکرات کو موقع دینا چاہیے۔
متحدہ عرب امارات نے سرکاری طور پر ابھی یہ نہیں بتایا کہ کُل کتنے فوجیوں کو یمن کے محاذ سے واپس بلایا جا رہا ہے۔ لیکن یمن میں حکام کے مطابق اس انخلا سے پہلے وہاں کوئی دس ہزار اماراتی فوجی تعینات تھے، جن میں سے خیال ہے کہ 50 سے 75 فیصد فوجیوں کو نکالا جا چکا ہے۔
یمن کی پانچ سالہ لڑائی میں کوئی 94 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ سعودی فوجی اتحاد کی بمباری اور حوثی باغیوں کے حملوں نے بڑے پیمانے پر یمن کو تباہ اور برباد کر دیا ہے۔ غیرسرکاری تنظیم 'سیو دی چلڈرن‘ کے ایک اندازے کے مطابق ان پانچ برسوں کے دوران یمن میں بھوک اور بیماری کے باعث پانچ سال سے کم عمر کے 85 ہزار بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔
سعودی عرب نے ابھی کھل کر متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے پر تبصرہ نہیں کیا۔ لیکن بظاہر یمن کے معاملے پر دونوں قریبی خلیجی اتحادیوں کی سوچ یکساں نہیں رہی۔
سعودی عرب کی ترجیح ہے کہ وہ یمنی دارالحکومت صنعا اور سعودی عرب کے سرحدی علاقوں سے حوثی باغیوں کو نکال باہر کرے۔ لیکن متحدہ عرب امارات کی اصل دلچسپی جنوبی یمن میں ہے، جہاں اس نے علحیدگی پسندوں کی سرپرستی کر کے اور مقامی گروپوں کو پیسہ اور ہتھیار فراہم کر کے اپنی حاکمیت قائم کر لی ہے۔
اماراتی حکام کا اصرار ہے کہ فوجیوں میں کمی کے باوجود وہ سعودی فوجی اتحاد میں اپنا کردار ادا کرتے رہں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سن دو ہزار پندرہ میں قائم ہونے والا یہ اتحاد اب بظاہر کچھ سکڑ رہا ہے۔ سعودی عرب سے اختلافات کی وجہ سے قطر اور مراکش پہلے ہی یمن سے اپنی فوجیں واپس بلا چکے ہیں، تاہم سوڈان کے ہزاروں فوجی اب بھی وہاں حوثیوں کے خلاف لڑائی کا اہم حصہ ہیں۔