ماریوپول کی آخری پناہ گاہ پر بھی روسی حملے تیز ہو گئے
5 مئی 2022یوکرین کا معروف بندرگاہی شہر ماریوپول اب تقریباً روسی فوج کے قبضے میں ہے اور روس نے ازوسٹل نامی قصبے کے اسٹیل پلانٹ کو بھی اپنے کنٹرول میں لینے کے کارروائی تیز کر دی ہے۔ یہی وہ واحد مقام ہے جہاں سے یوکرین کی مزاحت جاری تھی، تاہم عمارت کے اندر بہت سے عام لوگوں نے بھی پناہ لے رکھی ہے۔
اس دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے دفتر کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف سرگئی کیریینکو نے یوکرین کے اس محاصرہ شدہ شہر کا دورہ بھی کیا ہے۔ ڈونیٹسک کے ایک علیحدگی پسند رہنما ڈینس پوشیلن نے ٹیلی گرام پوسٹ میں اس دورے کی اطلاع دی۔
کیریینکو روس کے سابق وزیر اعظم ہیں اور ان کے موجودہ پورٹ فولیو میں ملکی سیاست کے امور بھی شامل ہے۔
ادھر یوکرین کے صدر نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ پلانٹ میں پھنسے عام شہریوں کے انخلا کا کوئی راستہ تلاش کرنے میں ان کی مدد کریں۔ روس نے بھی کہا کہ وہ انخلا کے لیے جنگ بندی اور ایک محفوظ راستہ دینے کے لیے تیار ہے۔
روسی حملوں میں تیزی
روس نے مشرق سمیت یوکرین کے مغربی علاقوں پر بھی فضائی حملے تیز کر دیے ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس فوجی ساز و سامان کے قافلوں کو بھی نشانہ بنایا ہے جو مغرب نے یوکرین کی مدد کے لیے فراہم کیے تھے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کا کہنا ہے روس نے مغربی علاقوں میں بہت اہم انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے۔ بعض عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ
آئندہ چند روز کے اندر ہی ماریو پول شہر مکمل طور پر روس کے قبضے میں ہو گا۔
امریکہ کی خفیہ معلومات سے یوکرین نے متعدد روسی جرنیلوں کو ہلاک کر دیا
معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بعض سینیئر امریکی حکام کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ امریکہ نے یوکرین کو اس نوعیت کی انٹیلیجنس فراہم کی کہ اس کی مدد سے اس کی فورسز موجودہ جنگ میں ہلاک ہونے والے بہت سے روسی جرنیلوں کو نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے میں کامیاب ہو سکے۔
نیویارک ٹائمز نے ایک سینیئر امریکی عہدیدار کے حوالے سے لکھا، ''ہدف بنانے میں مدد فراہم کرنا، بائیڈن انتظامیہ کی خفیہ کاوشوں میں سے ایک ہے تاکہ یوکرین کو میدان جنگ سے متعلق ریئل ٹائم خفیہ معلومات فراہم کی جا سکیں۔''
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے کس طرح روسی افواج کے ایسے ہیڈ کوارٹر کے مقام اور اس سے متعلق دیگر تفصیلات کے بارے میں یوکرین کو معلومات فراہم کیں، جو اکثر منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
یوکرین نے امریکی خفیہ معلومات کو جمع کیا اور پھر اپنی انٹیلیجنس سے مطابقت دی، جس میں ریکارڈ کی گئی گفتگو بھی شامل تھی۔ اس سے سینیئر روسی افسران کو تلاش کرنے میں مدد ملی اور پھر یوکرین نے ان مقامات پر حملے کیے اور سینیئر روسی فوجیوں کو ہلاک کیا۔
یوکرینی حکام کا دعوی ہے کہ انہوں نے اب تک کی لڑائی کے دوران روسی فوج کے تقریباً 12 جرنیلوں کو ہلاک کیا ہے۔ فوجی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر یہ بات درست ہے، تو یہ سینیئر فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
روس کا سکیورٹی کونسل کے اجلاس کا بائیکاٹ
اقوام متحدہ میں روس کے سفیر کا کہنا ہے کہ روس نے ''یورپی یونین کی دشمنی اور روسو فوبک پالیسیوں کی روشنی میں '' یورپی یونین کے ساتھ بدھ کے روز ہونے والے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر رسمی اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا۔
روسی نمائندے دمتری پولیانسکی نے ٹیلی گرام پر لکھا کہ یورپی یونین کی پالیسی یہ ہے کہ وہ ''یوکرینی بحران کی آگ کو بجھانے کے لیے اس پر فعال طور پٹرول ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔''
بدھ کو یورپی یونین کی سیاسی اور سلامتی کمیٹی کے ساتھ سلامتی کونسل کا یہ سالانہ اجلاس تقریبا ًتین برس بعد ہوا کیونکہ کورونا وائرس کی وبا کے سبب سن 2019 سے یہ نہیں ہو سکا تھا۔
جرمنی میں چھ لاکھ سے زیادہ یوکرینی پناہ گزین
مہاجرت اور تارکین وطن سے متعلق جرمن وفاقی ادارے کا کہنا ہے کہ 24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے چھ لاکھ سے زیادہ یوکرین جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ اس کل تعداد میں سے تقریباً 40 فیصد یوکرینی مہاجرین نابالغ ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس تعداد میں سے کتنے لوگوں نے اپنا اندراج کروایا اور واپس گئے یا پھر بغیر رجسٹریشن کے ہی کسی دوسرے کو ملک چلے گئے۔
جرمن وفاقی پولیس کے مطابق نئے آنے والوں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے اور چونکہ جنگ اب مشرق کی جانب منتقل ہو گئی، اس لیے بہت سے لوگ یوکرین واپس بھی لوٹ گئے۔
ص ز / ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)