یوکرائن تنازعے کے دوران پاکستانی وزیراعظم کا دورہء روس
22 فروری 2022پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ دو روزہ دورے کے لیے بدھ کو روس پہنچیں گے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے، ''پاکستان اور روس کے تعلقات باہمی احترام، بھروسے اور بین الاقوامی اور علاقائی معاملات پر اتقاق رائے کی بنیاد پر قائم ہیں۔‘‘
روس یوکرائن بحران
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں فوج بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ پوٹن نے پیر کو اُس حکم نامے پر دستخط کیے، جس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ فوجی کب بھیجے جائیں گے۔ حکم نامے کے مطابق ماسکو نے مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ دو علاقوں ڈونیسک اور لوہانسک کو خودمختار تسلیم کر لیا ہے۔ روس نواز علیحدگی پسندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ان صوبوں پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ تاہم ان صوبوں کے کچھ حصے ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔
پوٹن کا مشرقی یوکرائن میں روسی فوج بھیجنے کا حکم
پاکستانی سربراہ کا دورہ روس
یوکرائن کے عالمی بحران کے دوران پاکستانی وزیر اعظم کے روس کے دورے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہو صحافی اویس توحید کا کہنا تھا،''اس وقت یوکرائن کے تنازعے نے مغربی دنیا کو پریشان کر رکھا ہے اور اب روس کی جانب سے یوکرائن کی باغی ریاستوں کو خود مختار قرار دینے کے بعد عمران خان کا دورہ سفارتی کاری کے محاذ پر بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ عمران خان کو توازن برقرار رکھنا ہو گا تاکہ مغربی دنیا سے ناراضی مول نہ لی جائے اور چین اور روس کے بلاک کے ساتھ بھی اپنا تعلق قائم رکھا جائے۔‘‘
پاکستان امریکا سے دور جاتا جا رہا ہے اور اس کے چین اور روس کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اویس توحید کے مطابق پاکستان کے پاس بہت زیادہ آپشنز نہیں ہیں،''افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے بعد امریکا کی اس خطے میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے لیکن اگر امریکا پاکستان سے ناراض ہو گا تو اس کے تجارتی اثرات بہت زیادہ ہوں گے۔ پاکستان کی معیشت ایسی نہیں کہ یہ ملک یورپی یونین، عالمی بینک اور آئی ایم سے ناراضی مول لے۔‘‘ اویس توحید کے مطابق پاکستانی حکام سمجھتے ہیں کہ پاکستان اب چین اور روس کے بلاک سے زیادہ فوائد حاصل کر سکتا ہے خاص طور پر سی پیک کی تکمیل سے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس افغانستان ، اسلامو فوبیا سمیت مختلف علاقائی اور بین الاقوامی امور پر گفتگو کریں گے۔ اس بیان میں یوکرائن کا ذکر نہیں کیا گیا۔ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ فوجی مداخلت کے خلاف ہیں اور روس اور یوکرائن تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔