آئی ایس آئی اور سی آئی اے، ’کشیدگی عروج پر‘
6 جنوری 2011امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور پاکستانی فوج کی انٹیلی جنس سروس آئی ایس آئی کے درمیان تناؤ کی صورتحال نئی نہیں ہے۔ امریکی ایجنسیاں آئی ایس آئی پر الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ پاکستان کے تاریخی حریف ملک بھارت کی مخالفت کے باعث متعدد عسکریت پسند گروپوں کی پس پردہ پشت پناہی میں مصروف ہے۔ امریکی ایجنسیوں کو یقین ہے کہ ایسے ہی عسکریت پسندوں گروپوں میں چند ایسے بھی ہیں، جو القاعدہ اور طالبان سے گہرے روابط بھی رکھتے ہیں اور ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔
امریکہ کی خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کے انسداد کی جنگ کے خلاف کی جانے والی منصوبہ بندی میں مصروف متعدد خفیہ اہلکاروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو موضوع کی حساسیت کے باعث اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خطے میں امریکی خفیہ فوجی سرگرمیاں کافی زیادہ ہیں۔ ان سرگرمیوں سے واقف ان عہدیداروں کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے درمیان خفیہ ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی بجائے کشیدگی کی وجہ گزشتہ برس کئی مختلف عناصر رہے۔
ایک وجہ تو یہ رہی کہ امریکہ پاکستانی سکیورٹی فورسز سے یہ مطالبہ کرتا رہا کہ وہ اپنی مسلح کارروائیوں کا دائرہ کار شمالی وزیرستان تک بڑھائے، جسے عسکریت پسندوں کی محفوظ ترین پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور سکیورٹی فورسز اس آپریشن کے آغاز پر آمادہ نہ ہوئے۔
امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں، جو ایسے عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کرتے ہیں، جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف کارروائیوں میں براہ راست توملوث نہیں مگر یہ مسلح گروپ، امریکہ مخالف طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کی معاونت ضرور کرتے ہیں۔
امریکی حکام ممبئی میں سن 2008ء میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ڈیوڈ ہیڈلی کے اس بیان پر بھی سخت تشویش کا شکار ہیں، جس میں اس کا کہنا ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی بالواسطہ طور پر ملوث تھی۔
تاہم امریکی خفیہ امور کے ماہرین اس بات پر قدرے مطمئن بھی ہیں کہ پاکستان کے موجودہ فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے عسکریت پسندوں کی معاونت کرنے والے عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کی ہے۔ حکام کے خیال میں اب آئی ایس آئی اور عسکریت پسندوں کے درمیان روابط میں کمی پر سنجیدہ توجہ دی گئی ہے تاہم فوجی قیادت اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر زیادہ مطمئن نہیں ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ امریکی اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر پہنچی، جب گزشتہ برس پاکستانی میڈیا میں نام منظر عام پر آنے کے بعد اسلام آباد میں متعین اعلیٰ ترین سی آئی اے اہلکار کو مجبوراﹰ ملک چھوڑنا پڑا۔
رپورٹ: عاطف توقیر / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک