آئی ایم ایف ٹیم پاکستان میں، گزشتہ ڈیل کا حتمی جائزہ شروع
14 مارچ 2024بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا ایک وفد اسلام آباد میں آج چودہ مارچ جمعرات کے دن سے پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کا حتمی جائزہ لے رہا ہے۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے مطابق ان پانچ روزہ مذاکرات کے اختتام پر اگر بیل آؤٹ پیکج سے متعلق تمام شرائط پوری ہونے کا تعین ہو گیا، تو اقتصادی جائزہ اپنے تکمیلی مراحل میں پہنچ جائے گا اور پاکستان آٹھ بلین ڈالر تک کا ایک نیا بیل آؤٹ پیکج مانگے گا۔ یاد رہے کہ موجودہ بیل آؤٹ پیکج کی میعاد رواں ماہ ختم ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے تحت 2023 ء کی بیل آؤٹ ڈیل پر دونوں فریقوں نے آخری بار اتفاق کیا تھا۔
پاکستان کو 1.1 بلین ڈالر کی حتمی قسط ملنے کا امکان ہے۔ اس ملک کو بدترین معاشی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا ہت اور موجودہ اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی ملک اپنی تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس ملک کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے ضمن میں ڈیفالٹ کر جانے کے خطرات کا سامنا بھی ہے۔
پچھلے سال کے بیل آؤٹ پیکج پر شہباز شریف نے دستخط کیے تھے، جنہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے معزولی کے بعد وزارت عظمیٰ سنبھالی تھی۔
شہباز شریف آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد اسی ماہ دوبارہ ملکی وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے جائزہ مشن کی صورت میں تازہ ترین پیش رفت ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب حال ہی میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کو ایک خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے آئی ایم ایف پر زور دیا تھا کہ وہ اسلام آباد کے ساتھ کسی بھی بات چیت کو آڈٹ سے مشروط کرے۔ خاص طور پر گزشتہ ماہ کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کے حوالے سے، جن کے بارے میں عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اسے انتخابی مہم سے لے کر الیکشن کے انعقاد اور اس کے بعد تک بھی شدید کریک ڈاؤن کا سامنا رہا۔ پاکستانی حکام ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔
ابھی تک آئی ایم ایف نے عمران خان کے اس خط پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم شہباز شریف حکومت کی طرف سے عمران خان کی طرف سے آئی ایم ایف کو خط لکھے جانے پرخان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ شہباز شریف حکومت کے مطابق یہ خط لکھنا عمران خان کی طرف سے مبینہ طور پر ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش تھی۔
پاکستان گزشتہ برس موسم گرما میں اپنے ذمے غیر ملکی ادائیگیوں کے حوالے سے ڈیفالٹ کر جانے سے بال بال بچا تھا۔ آئی ایم ایف نے مہینوں کی بات چیت کے بعد پاکستان کے لیے ایک بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دی تھی۔ اس پس منظر میں شہباز شریف نے ابھی اسی ہفتے ہی یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج دیرپا اقتصادی بحران پر قابو پانا ہے۔
ک م/م م (اے پی)