’’یہ مت بھولو کہ تم ایک عورت ہو‘‘ جیسے جملے اکثر ان خواتین کو سننے پڑتے ہیں، جو اپنی زندگی کے معاملات میں متحرک ہوں۔ لیکن ہم اپنے اردگرد معاشرتی رویوں کا ایک تضاد یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو خاتون اکیلے اپنے خاندان کا بوجھ بہادری سے اٹھا رہی ہو اسے تعریفاً بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں خاتون تو اپنے خاندان کا گویا مرد ہے۔ یعنی یہ بات طے کر لی گئی ہے کہ مرد اور خواتین کے مابین معاشرتی، فکری، معاشی اختلافات دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ صنفی تفریق تہذیبوں کے وجود میں آنے سے بھی شاید پہلے موجود تھی۔ قدامت پسند معاشروں میں تو صنفی امتیاز کے لیے جہالت کو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ صرف قدامت پرست معاشرے ہی اس صنفی تفاوت کا شکار نہیں بلکہ ترقی یافتہ معاشرے بھی اس سوچ سے دامن نہیں چھڑا سکے ہیں۔
"گلاس سیلنگ" کی وجہ سے خواتین اور اقلیت کی سی، ای، اوز یا ایگزیگیٹیو پوزیشنز پر جانے کے لیے زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ پہلی بار یہ اصطلاح ایک امریکی خاتون میریلن لوڈن نے 1978ء میں استعمال کی۔ مغربی معاشرے میں اس نظریے کو بہت پذیرائی تو ملی لیکن یہ سوچ ختم نا ہوسکی۔ حد تو یہ ہے کہ کسی کمپنی میں اگر کوئی خاتون بطور سی ای او نامزد کر دی جاتی تو اسٹاک مارکیٹ میں اس کمپنی کے شیئرز کی قدر میں کمی آجایا کرتی تھی۔
گو کہ مینجمنٹ کی زبان میں یہ ٹرم منفی طور پر دیکھی جاتی ہے۔ لیکن اس ضمن میں کی جانے والی بےشمار تحقیقات بتاتی ہیں کہ ہر معاشرے کی خواتین آج بھی صنفی امتیاز کا شکار ہیں اور جینڈر پے گیپ یعنی تنخواہوں کا صنفی فرق روز اول سے جوں کا توں موجود ہے۔
چند سال پہلے اس حوالے سے کلینکل سائیکولوجیسٹ جورڈن پیٹرسن اور کیتھی نیومین کے درمیان ہونے والے مباحثے نے بہت شہرت پائی۔ خواتین اور مردوں کے درمیان تنخواہوں کا فرق موضوع گفتگو تھا۔ پیٹرسن ایک کلینکل سائیکولیجسٹ ہونے کے ناطے یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں اصناف جذباتی اور جسمانی طور پر مختلف ہیں۔ کیریئر اور پروفیشن کا انتخاب کرنے کے معاملے میں دونوں اصناف کی چوائس مختلف ہوتی ہے۔ اکثر خواتین ایسی ملازمتوں کی جانب راغب ہوتی ہیں، جن میں تنخواہ کم ہوتی ہے۔
ڈاکٹر پیٹرسن کی اینٹی فیمنسٹ رائے نے مغربی میڈیا پر شور تو خوب مچایا اور یقیناً مزید تحقیقات کے دروازے کھلے ہوں گے لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو ہمیشہ سے پس منظر میں ہی رکھا جاتا ہے۔ اور سماج کے دھارے میں بہتے بہتے اپنی اصل استعداد کو بھول چکی ہیں۔ لہذا ہمارے یہاں اس نظریے کی مخالفت کرنے والے تو موجود ہیں لیکن اس کے حق میں بات کرنا گویا شجر ممنوعہ ہے۔ حتیٰ کہ خواتین خود اپنے حق کی بات درست انداز میں کرنے سے قاصر ہیں۔
اصل میں ہوا کچھ یوں ہے کہ ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ خواتین نازک ہوتی ہیں۔ جسمانی مشقت ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ خواتین سے عقلمندی کی امید رکھنا عبث ہے۔ الفاظ چونکہ ذہن میں ایک تصویر بناتے ہیں اور پھر وہ تصویر ایک ریفرنس کے طور پر محفوظ ہو جاتی ہے۔ بار بار ایک جیسے الفاظ سنتے سنتے انسان اپنے بارے میں ویسا ہی گمان رکھ لیتا ہے۔ لہذا ہمارے یہاں بھی خواتین خود اپنے بارے میں پوری طرح سے قائل ہیں کہ ہم مردوں سے کم صلاحیتوں کی حامل ہیں۔
اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو کوئی نا کوئی ایسی خاتون کی مثال ملے گی جو بہترین انداز میں حالات کا مقابلہ کر رہی ہو گی۔ دوسری جانب ہمارے ذرائع ابلاغ اور ڈرامے بھی اسی سوچ کو تقویت دیتے ہیں۔ اس ذہنی سوچ کے ساتھ جب کوئی خاتون اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر اوپر آنے کی کوشش کرے تو اس کی راہ میں بے شمار روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ اس کی حوصلہ شکنی کے لیے مختلف حربے آزمائے جاتے ہیں۔ ان کو کبھی لباس کے حوالے سے تو کبھی خاندانی پس منظر کے حوالے سے طرح طرح کے لیبل لگائے جاتے ہیں۔
خواتین تعلیم کے میدان میں تو واضح طور پر مردوں سے آگے نظر آتی ہیں۔ لیکن اگر سیاسی میدان کے اعدادوشمار دیکھے جائیں یا صنعت کے میدان میں کسی کمپنی کے سربراہوں کا فیصد نکالا جائے تو خواتین کی تعداد نا ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح صحافت کے شعبے میں بھی جو خواتین موجود ہیں ان کو اپنی صلاحیت، ذہانت اور اہلیت کے باوجود ہر روز اپنی بقاء کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔
عورت ناقص العقل ہے جیسے جملے آج بھی راستہ روکے کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو پیدائش کے بعد سے ہی لڑکی کی تربیت کے نام پر اس کو ایک خوف زدہ، ڈری سہمی سی عورت بننے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اگر کوئی خاتون اس مینڈک کی مانند اوپر چڑھتی چلی جائے جسے لوگوں کی آواز نہیں آرہی تھی کہ "تم نہیں کر سکتے" اور وہ پہاڑ کی بلندی تک پہنچ جائے تو پھر اس کو نیچے گرانے کے لیے ہر حربہ آزمایا جاتا ہے۔
آج کے دور کی خاتون معاشرے کی ان تمام ذہنی پسماندگیوں کے باوجود نئے افق تلاش کر رہی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے تو ہمارے اسکالرز عوامی بیانیہ بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں اور پھر ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہماری بیٹی، بہن اور بیوی کو معاشرے کی ایک مضبوط عورت بننے میں گھر والوں کی حمایت حاصل ہو۔
بیٹی کی تربیت میں اس بات کو خاص طور پر مدنظر رکھیں کہ آج کی خاتون کو ایک پیشہ ورانہ زندگی بھی گزارنی ہے۔ گھر سے نکلتے وقت اسے اچھی طرح سے معلوم ہونا چاہیے کہ گھر سے باہر اس کا باپ، بھائی ساتھ نہیں ہے۔ اسے پورے اعتماد سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا اور ان کو مزید نکھارنا ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کن صلاحیتوں کی حامل ہے اور اسے کس شعبے کا انتخاب کرنا ہے۔
گلاس سیلنگ کو توڑ کر اوپر جانے والی خواتین بھی اسی دنیا کی باسی ہیں۔ ایسی خواتین کی تعداد کم ضرور ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداد بڑھتی نظر آرہی ہے۔ یاد رکھیں آج کی بیٹی بوجھ نہیں بلکہ اگر سمجھیں تو آپ کا بازو ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔