بیلاروس کے صدر کا دورہ پاکستان: مضمرات اور امکانات
26 نومبر 2024پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن اسلام آباد میں احتجاج کر رہے ہیں اور امن و امان کے قیام کے لیے وفاقی دارالحکومت میں فوج کو طلب کر لیا گیا ہے۔ ادھر عالمی سطح پر بھی سیاسی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیلا روس کے صدر کا یہ سہ روزہ دورہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اہم تو ہے، لیکن اس کی ٹائمنگ اور ممکنہ اثرات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
انتخابی دھاندلی، بیلاروس کے صدر لوکاشینکو پر پابندی
کیا بیلا روس کے صدر کے دورے کا یہ وقت مناسب تھا؟
ممتاز ماہر سیاسیات ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بیلا روس کے صدر کو ان حالات میں مدعو کیے جانے پر حیرت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں پاکستانی مظاہرے کر رہے ہیں اور برطانوی و امریکی قانون سازوں پر عمران خان کے حق میں مداخلت کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان کے بقول، ''ایسے حالات میں کسی ریاست کے سربراہ کو مدعو کرنا حکومت کی بے چینی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ میں اس اقدام کی کوئی معقول وجہ نہیں دیکھتا۔‘‘
قائداعظم یونیورسٹی سے منسلک اسلام آباد کے ڈاکٹر مجیب افضل کے مطابق، سیاسی بحران اور عدم استحکام کے دور میں بیلا روس کے صدر کا دورہ پاکستان ان کے تزویراتی عزم کو ظاہر کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی جمہوری اقدار پر ان کی کمزور ترجیح کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ ڈاکٹر مجیب کا کہنا ہے کہ غیر مغربی طاقتیں عموماً جمہوریت کے فروغ میں کم دلچسپی رکھتی ہیں اورایسی حکومتوں کی حمایت کرتی ہیں جو ان کے مفادات سے ہم آہنگ ہوں، سرمایہ داری کو فروغ دیں، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھیں۔ وہ کہتے ہیں، ''پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ اس کے بغیر ملک میں استحکام ممکن نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے ساتھ بھی استحکام کا حصول دشوار ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو اقتصادی ترقی کے لیے نقصان دہ اور کاروبار مخالف کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جبکہ پی ٹی آئی خود کو نظام کا لازمی حصہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔‘‘
بیلاروس کو اپنا حصہ بنانے کے روسی منصوبے کا انکشاف
کیا پاکستان اپنی خارجہ پالیسی بدل رہا ہے؟
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ لگتا ہے کہ پاکستان کسی بھی عالمی بلاک کا حصہ بننے کی بجائے چین اور امریکہ کے درمیان طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی پالیسی اپنائے گا۔ یوکرین جنگ کے حوالے سے پاکستان نے غیرجانبداری برقرار رکھی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مؤقف پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، کیونکہ قیادت کا خیال ہے کہ نئی امریکی حکومت کا ردعمل سابق وزیراعظم عمران خان کے روسی دورے کے وقت کے ردعمل سے مختلف ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر رئیس کے مطابق، پاکستان کی امریکہ سے توقعات شاید پوری نہ ہوں، لیکن پاکستان سفارتی آپشنز کو بھرپور انداز میں آزمانے کی کوشش کر رہا ہے۔'' انہوں نے کہا، ''موجودہ حکومت معاشی سرمایہ کاری کی خواہاں ہے اور بیلاروس مختلف شعبوں، خاص طور پر زراعت اور آئی ٹی میں، سرمایہ کاری کے نئے امکانات پیدا کر سکتا ہے۔‘‘
دفاعی تعاون کے سوال پر، ڈاکٹر رئیس نے کہا کہ پاکستان کسی دفاعی معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسے عملی امور میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ان کے مطابق، پاکستان کی موجودہ ترجیحات معاشی بہتری اور تکنیکی پیشرفت کے حصول پر مرکوز ہیں۔
یورپی یونین کی نئی پابندیاں، بیلاروس کو کتنا نقصان ہو گا؟
پاکستان اور بیلاروس کے اعلیٰ سطحی دوروں کا جائزہ
پاکستان اور بیلاروس کے درمیان سفارتی، اقتصادی، سیاسی اور فوجی تعاون انیسِ سو اکانوے میں بیلاروس کو پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد شروع ہوا۔ دونوں ممالک نےانیسِ سو چورانوے سے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ بیلاروس نے دو ہزار چودہ میں اسلام آباد میں سفارت خانہ کھولا، جبکہ پاکستان نے دو ہزار پندرہ میں منسک میں اپنا سفارتی مشن قائم کیا۔
بیلاروس کے صدر لوکاشینکو نےاٹھائیس اور انتیس مئی، دو ہزار پندرہ کو پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف نے دس سے بارہ اگست، دو ہزار پندرہ کے دوران بیلاروس کا دورہ کیا۔ اس کے بعد، بیلاروس کے وزیر اعظم آندرے کوبیاکوف نے نو سے گیارہ نومبر، دو ہزار پندرہ کو پاکستان کا دورہ کیا۔
بیلاروس کے صدر لوکاشینکو نے چار سے چھ اکتوبر، دو ہزار سولہ کو پاکستان کا دوسرا سرکاری دورہ کیا۔ یکم سے چار فروری، دو ہزار سترہ کو چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بیلاروس کا دورہ کیا۔ اس کے بعد، دس سے بارہ اپریل، دو ہزار سترہ کو بیلاروس کی قومی اسمبلی کے ایوان نمائندگان کے چیئرمین ولادیمیر اینڈریچینکو نے پاکستان کا دورہ کیا۔
سولہ سے انیس دسمبر، دو ہزار اٹھارہ کے دوران پاکستان کی مسلح افواج کی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین نے بیلاروس کا دورہ کیا۔ بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکو نے سابق وزیر اعظم عمران خان سے جون دو ہزار انیس میں کرغزستان کے شہر بشکیک میں اور ستمبر دو ہزار اکیس میں دوشنبہ، تاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کے اجلاس کے موقع پر ملاقات کی تھی۔
ایک اور باہمی اعلیٰ سطحی مصروفیت مئی، دو ہزار تئیس میں بیلاروسی وزیر خارجہ سرگئی ایلینک کے دورہِ پاکستان کی صورت میں سامنے آئی۔
ان دنوں ایک مرتبہ پھر بیلاروس کے صدر پاکستان کے تین روزہ دورے پر پاکستان میں ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کوشاں ہے اور اندرونی سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے، جبکہ عالمی طاقت کا توازن بھی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔
پوٹن کا بیلاروس میں روسی جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا اعلان
دونوں ملکوں کا تجارتی سفر
جنوری تا اگست دو ہزار اکیس کے دوران، بیلاروس کے سفارت خانہ اسلام اباد کی ویب سائٹ پر دستیاب ڈیٹا کے مطابق پاکستان کے ساتھ اس کی تجارت کا حجم ترپن اعشاریہ دو ملین ڈالر تھا۔ بیلاروس کی اشیاء کی برآمدات چوالیس اعشاریہ تین ملین ڈالر جبکہ درآمدات نو اعشاریہ آٹھ ملین ڈالر تھیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی توازن بیلاروس کے حق میں مثبت ہے (پینتیس اعشاریہ تین ملین ڈالر)۔
حالیہ برسوں میں بیلاروس اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم سالانہ پچاس سے پینسٹھ ملین ڈالر کے درمیان رہا ہے۔ جبکہ اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ دو ہزار کے پہلے پانچ ماہ میں باہمی تجارت میں تیس فیصد اضافہ ہوا، اور بیلاروس کی برآمدات پاکستان کو پچھلے سال کے مقابلے میں ایک اعشاریہ پانچ گنا بڑھ گئیں۔
پاکستان اپنی برآمدات کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ’’ویژن پاکستان: سوارب ڈالر برآمدات کا راستہ‘‘کی حکمت عملی کے تحت سوارب ڈالر کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔
پاکستان اور بیلاروس کے درمیان اہم اعلامیے بھی موجود ہیں، جن میں اسلام آباد اعلامیہ برائے پاکستان / بیلاروس پارٹنرشپ اور دوستی و تعاون کے معاہدے شامل ہیں۔ بیلاروس کی پاکستان کو برآمدات میں ٹریکٹر، کھاد، دفاعی ساز و سامان اور مشینری شامل ہیں، جبکہ پاکستان کی برآمدات میں ٹیکسٹائل، خوراک اور طبی آلات شامل ہیں۔