احمدیوں پر حملوں میں تیزی، انسانی حقوق کی تنظمیوں کی تشویش
26 نومبر 2020انسانی حقوق کی تنظیموں ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کی جانب سے یہ مشترکہ بیان پاکستان میں ایک سولہ سالہ حملہ آور کی جانب سے عبادت کے لیے جمع ہونے والے احمدیوں کے ایک گروپ پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس واقعے میں ایک نوجوان احمدی ڈاکٹر طاہر محمود ہلاک ہو گیا تھا۔ واقعے میں دیگر تین احمدی افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں اس احمدی ڈاکٹر کے والد بھی شامل تھے۔
پاکستان میں احمدی ڈاکٹر کا قتل: ’نوجوان قاتل کو شدت پسندی کس نے سکھائی‘
احمدی برادری کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرے؟
طاہر محمود کے اہل خانہ اس واقعے کے بعد روپوش ہیں کیوں کہ باقیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔ مشتبہ حملہ آور کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
اتوار کو انسانی حقوق کی تین اہم عالمی تنظیموں کی جانب سے پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ احمدیوں کے خلاف پرتشدد حملوں اور دھمکیوں میں ملوث افراد کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کرے۔
پاکستان میں جولائی سے اب تک مختلف حملوں میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد کو قتل کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا خطے کے سربراہ عمر وڑائچ کے مطابق، ''پاکستان میں کوئی بھی دوسری برادری احمدیوں کی طرح مسائل کا شکار نہیں ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ تازہ لہر فقط احمدیوں کو لاحق غیرمعمولی خطرات ہی کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ حکام کی جانب سے کوتاہی کی بھی عکاس ہے، جو اس برادری کو تحفظ فراہم کرنے یا ایسے حملوں میں ملوث افراد کو سزا دینے میں ناکام ہیں۔‘‘
بین الاقوامی کمیشن آف جیورسٹ کے قانون اور پالیسی سے متعلق ڈائریکٹر ایان سائڈرمین نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے ان وعدوں کا یاد کرایا جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق کیے گئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا خطے کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریسیا گوسمَن نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قانونی اور پالیسی کے شعبے میں فوری اقدامات کر کے ملک میں بڑے پیمانے پر مذہبی بنیادوں پر موجود امتیاز کا خاتمہ کرے۔
یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں دستوری طور پر احمدیوں کو سن 1974 میں غیرمسلم قرار دیا گیا اور تب سے اب تک یہ برادری مسلم شدت پسندوں کے نشانے پر ہے۔
اس سے قبل پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ مولانا طاہر اشرفی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا پشاور اور ننکانہ صاحب میں اقلیتی افراد کے قاتلوں میں سے اکثر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ طاہر اشرفی نے دعویٰ کیا کہ عمران خان حکومت کے قیام کے بعد سے ملک بھر میں اقلتیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
تاہم کئی ناقدین کو شکایت ہے کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر اقلیتوں کے مسائل پر بالعموم اور احمدیوں کے مسئلے پر بالخصوص بات چیت کھل کر نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان کے خلاف ہونے والے تشدد کی کھلے الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے۔
کمیشن کے وائس چیئرپرسن اسد بٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "طاہر اشرفی یا کسی بھی حکومتی شخصیت کی طرف سے غیر مسلم پاکستانیوں کی قتل پر تشویش اور ایسے واقعے کے خلاف ایسی کوشش قابل ستائش ہے۔ اس سے غیر مسلم پاکستانیوں میں احساس تحفظ بڑھے گا اور انہیں بھی یہ احساس ہوگا کہ حکومت ان کے بارے میں بھی سوچتی ہے۔‘‘
جماعتِ احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''ہماری اطلاعات کے مطابق پشاور کے ایک قتل میں قاتل احاطہ عدالت میں ہی موجود تھا اور وہ وہیں سے گرفتار ہوا جبکہ پشاور میں قتل ہونے والے دیگر احمدیوں کے قاتل ابھی تک نہیں پکڑے گئے ہیں۔‘‘ سلیم الدین نے کہا کہ یہ کام مولانا طاہر اشرفی کا نہیں ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ قاتل پکڑے گئے ہیں یا نہیں بلکہ یہ کام وزارتِ داخلہ اور وزارتِ انسانی حقوق کا ہے۔
ع س، ع ت، ا ا (ڈی پی اے، روئٹرز)