اسرائیل کی جانب سے فائر بندی کی مشروط پیشکش
10 اپریل 2011اسرائیلی وزیرِ دفاع ایہود باراک نے یہ پیشکش اتوار کے روز کی۔ ان کی یہ پیشکش ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب غزّہ اور جنوبی اسرائیل میں کشیدگی دو برس کے عرصے میں اپنے عروج پر ہے۔ غزّہ میں فلسطینی عسکری تنظیم حمّاس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ داغے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعرات کے روز غزّہ سے اسرائیل پر فائر کیے گئے ایک راکٹ حملے سے اسکول کی ایک بس کو نقصان پہنچا اور ایک سولہ سالہ طالبِ علم کے شدید زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ اس کے بعد سے اب تک اسرائیل کی جانب سے غزّہ میں عسکریت پسندوں کے گیارہ گروپس اور قریباً پندرہ ٹھکانوں پر حملے کیے گئے ہیں، جن کہ بارے میں اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل پر راکٹ حملوں میں ملوّث ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع کا بہرحال کہنا ہے کہ اسرائیل پر حملے کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے اور ان کا ملک ان حملوں کا بھر پور جواب دے گا۔ حمّاس کی جانب سے اسرائیل کی اس پیشکش کے جواب میں کہا گیا ہے کہ وہ حملے اسی صورت میں بند کریں گے جب کہ ’قابض‘ اسرائیلی حکومت غزّہ پرحملے بند نہیں کرتی۔ حمّاس کا کہنا ہے کہ صلح کا جواب صلح سے دیا جائے گا۔
فلسطین میں مسلّح گروہوں کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر اب تک ایک سو تیس کے قریب راکٹ فائر کیے جا چکے ہیں، جن میں سے دس روسی ساخت کے میزائل اور ساٹھ کم فاصلے تک مار کرنے والے وہ راکٹ ہیں، جو غزّہ ہی میں تیّار کیے جاتے ہیں۔
اسرائیلی کی طرف سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں جمعرات سے لے کر اب تک اٹھارہ فلسطینی ہلاک اور ساٹھ کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی وزارتِ دفاع کے مطابق اسرائیل کے نئے میزائل شکن نظام کی بدولت آٹھ راکٹوں کو اسرائیل پہنچنے سے پہلے مار گرایا گیا ہے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق