اسرائیل:نیتن یاہو کا اقتدار ختم، نیفتالی بینیٹ نئے وزیر اعظم
14 جون 2021اسرائیلی قانون سازوں نے اتوار کے روز اتحادی حکومت کے حق میں اعتماد کے ووٹ کو منظوری دے دی۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل میں سب سے زیادہ مدت تک وزیر اعظم رہنے والے بینجمن نیتن یاہو کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔
اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کے مابین سخت نظریاتی اختلافات ہیں تاہم وہ نیتن یاہو کو برطرف کرنے کے لیے متفق ہو گئیں۔ 120 رکنی اسرائیلی پارلیمان میں ووٹنگ کے دوران نیفتالی بینیٹ کو 59 کے مقابلے میں 60 ووٹ ملے جب کہ ایک رکن غیر حاضر رہا۔
ووٹنگ کے فوراً بعد نیفتالی بینیٹ نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لے لیا اور اپنے سابق حلیف کو ہٹا کر اسرائیل کے پہلے آرتھوڈوکس یہودی رہنما بن گئے۔
مخلوط حکومت کے معاہدے کے تحت یامینا پارٹی کے سربراہ نیفتالی بینیٹ، ستمبر 2023 تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہیں گے جبکہ مزید دو سالوں کے لیے اقتدار یش اتید کے رہنما، یائیر لیپد کے حوالے ہو گا۔
بینیٹ کا کابینہ سے پہلا خطاب
بینیٹ نے نئی کابینہ کے پہلے اجلاس کا آغاز روایتی یہودی طریقے سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک ”ایک نئی راہ پر قدم بڑھا رہا ہے۔ اسرائیل کے شہری ہماری طرف دیکھ رہے ہیں اور ان کی توقعات پر پورا اترنے کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے۔ اس ذمہ داری کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے، یہ بات پیش نظر رکھنی ہوگی کہ ہم سب کو اپنے اپنے نظریاتی امور پر تحمل سے کام لینا ہے۔"
متبادل وزیر اعظم یائر لیپد نے اپنی مختصر تقریر میں کہا”دوستی اور اعتماد" کی بنیاد پر یہ حکومت قائم ہوئی ہے اور ہمیں اسے برقرار رکھنا ہو گا۔
اتحادی حکومت میں کون شامل ہیں؟
اتحادی حکومت مختلف سیاسی نظریات کی حامل آٹھ جماعتوں پر مشتمل ہے۔ ان میں انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست یمینا پارٹی سے لے کر عرب اسلامی قدامت پسند رام پارٹی شامل ہے۔ 120رکنی پارلیمان میں ان جماعتوں کے اراکین کی مجموعی تعداد 61 ہے۔
اتحادی حکومت میں مجموعی طور پرتین دائیں بازو کی، دو اعتدال پسند، دو بائیں بازو کی اور ایک عرب جماعت شامل ہے۔ یہ پہلاموقع ہے جب ایک عرب جماعت اسرائیل کی حکمراں اتحاد میں شامل ہوئی ہے۔
یمینا پارٹی کے رہنما نیفتالی بینیٹ نے کہا ”آج ڈھائی برس سے جاری سیاسی بحران کا خاتمہ ہو گیا۔"
اسرائیلی پارلیمان میں اسلام پسند رام پارٹی کے سربراہ منصور عباس کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی اپنی اتحادیوں کے خاطر بڑی قربانی دے رہی ہے اور ”ایک بہتر، نئی، ملک کے تمام شہریوں، یہودیوں اور عربوں، کے لیے اصولوں پر مبنی تعلقات کے خاطر بات چیت کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گی۔"
عالمی رہنماوں کا ردعمل
متعدد عالمی رہنماوں نے اسرائیل کے نئے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے پر ان کو مبارک باد دی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا”میں وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ، متبادل وزیر اعظم اور وزیر خارجہ یائر لیپد داور نئی اسرائیلی کابینہ کے تمام اراکین کو مبارک باد دیتا ہوں۔" انہوں نے مزید کہا”میں دونوں ملکوں کے درمیان تمام شعبوں کو مستحکم کرنے اور تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے وزیر اعظم بینیٹ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہوں گا۔ امریکا کے لیے اسرائیل سے زیادہ بہتر کوئی اور دوست نہیں ہو سکتا ہے۔“
اسرائیل کے نئے وزیر اعظم نے جوابی بیان میں امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا اور دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے بیان میں کہا”جرمنی اور اسرائیل کے درمیان ایک منفرد دوستانہ تعلق ہے اور ہم اسے مزید مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے پیش نظر میں آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش مند ہوں۔"
یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے بھی نیفتالی بینیٹ کو مبارک باد دی ہے اورعمومی خوشحالی نیز خطے میں امن اور استحکام کے لیے یورپی یونین اور اسرائیل کے تعلقات کو مستحکم کرنے پر زور دیا۔
غزہ پر کنٹرول کرنے والے عسکریت پسند گروپ حماس نے کہا کہ حکومت بدلنے سے اسرائیل کے حوالے سے حماس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔”یہ ایک قبضہ اور نو آبادیاتی وجود ہے، جس سے ہمیں اپنے حقوق واپس لینے کے لیے طاقت کے ساتھ مزاحمت کرنی چاہیے۔"
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے کہا ”یہ اسرائیل کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہمارا موقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔"
’جدوجہد جاری رہے گی، نیتن یاہو‘
اسرائیلی پارلیمان میں نئی حکومت کی منظوری سے قبل نئے اسپیکر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے گئے اور یش اتید سے تعلق رکھنے والے میکی لیفی کو نیا اسپیکر منتخب کیا گیا۔ ان کی حمایت میں 67 اراکین نے ووٹ دیے۔
لیکود پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا ”اسرائیلی اپوزیشن ایک مضبوط حزب مخالف کا رول ادا کرے گی اور عوام کی آواز واضح انداز میں اٹھائے گی۔"
انہوں نے مزید کہا”اگر یہ ہماری قسمت میں ہے کہ ہم اپوزیشن میں رہیں تو ہم ایسا ہی کریں گے اور اس وقت تک جد و جہد کرتے رہیں گے جب تک اس خراب حکومت کو ختم نہیں کر دیتے اور اپنے انداز میں اس ملک کی قیادت کے لیے دوبارہ اقتدار سنبھال نہیں لیتے۔"
ج ا/ ص ز (اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)