اسلام آباد منعقدہ کل جماعتی کانفرنس اور ردعمل
30 ستمبر 2011پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جمعرات کے روز ہونیوالی اس کانفرنس کے شرکاء نے اعلیٰ فوجی حکام اور وزیر خارجہ سے بریفنگ لینے کے بعد پاکستانی خفیہ ایجنسی کے طالبان گروہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ رابطوں کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ 30 سے زائد سیاسی جماعتوں کی قیادت کی جانب سے منظور کی گئی 13 نکاتی مشترکہ قرارداد میں کسی ایک بھی جگہ امریکہ یا حقانی نیٹ ورک کا نام نہیں لکھا گیا۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے مذہبی سیاسی جماعت جماعت اسلامی کے امیر مولانا منور حسن نے کہا کہ ’’امریکہ کو یہ پیغام با آواز بلند اور واضح طور پر جانا چاہیے کہ انہوں نے ریڈ لائن کراس کی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی قوم کے اندر یکجہتی بھی پیدا ہوئی ہے لیکن فی الحقیقت امریکہ کے خلاف جذبات بھی بہت بھڑک اٹھے ہیں۔‘‘
مشترکہ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’’امن کے لیے پاکستان کو قبائلی علاقوں میں اپنے لوگوں کے ساتھ بات چیت شروع کرنی چاہیے اور اس ضمن میں مناسب طریقہ کار وضع کیا جائے۔‘‘
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کر سکتا ہے تو پاکستان اپنے لوگوں کے ساتھ بات کیوں نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ وقت آ گیا ہے امن کا ، امن کو موقع دیا جائے ، سات سال ادھر ، دس سال ادھر، ملٹری ایکشن ہوئے ۔ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا بلکہ اور دلدل میں پھنس رہے ہیں۔‘‘
ایم کیو ایم کے رہنما حیدرعباس رضوی کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کوئی بھی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے فہم و فراست کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھا۔‘‘
پاکستان میں طالبان کے حامی سمجھے جانے والے جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ’’جو الزامات حقانی نیٹ ورک کے سلسلے میں فوج پر لگائے گئے ہیں، پاکستان پر لگائے گئے ہیں، کانفرنس میں شدت کے ساتھ ان کی مذمت اور تردید کی ہے۔‘‘
قرارداد کے آخری نقطے کے مطابق پہلے کی قراردادوں اور اس قرارداد پر عملدرآمد کے جائزے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے اور پیش رفت سے ماہانہ بنیاد پر عوام کو آگاہ کیا جائے۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: امجد علی