اسلام مخالف مظاہرین نے چیک جرمن سرحدی گزرگاہیں بند کر دیں
9 اپریل 2016چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ سے ہفتہ نو اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ان احتجاجی مظاہرین نے جرمنی اور چیک جمہوریہ کے درمیان ماضی میں زیر استعمال رہنے والی دو سرحدی گزر گاہوں کو آج عام ٹریفک کے لیے زبردستی بلاک کر دیا۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ یورپ میں تارکین وطن کی آمد اور اسلام کے مخالف ان مظاہرین نے جن دو سابقہ سرحدی گزر گاہوں کو بلاک کیا، ان میں سے ایک تو سِینووَیٹس آلٹن برگ Cinovec-Altenberg کی گزر گاہ تھی اور دوسری کرَیٹس لِٹسے کلِنگن تھال Kraslice-Klingenthal کی سابقہ بارڈر کراسنگ۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان ان سابقہ سرحدی گزرگاہوں میں سے ہر ایک پر احتجاج کرنے اور اسے ٹریفک کے لیے بلاک کر دینے والے مظاہرین کی تعداد سو کے قریب تھی۔
ان مظاہرین کا تعلق چیک جمہوریہ میں اسلام مخالف گروپ ’اسلام کے خلاف بلاک‘ سے تھا جب کہ جرمن مظاہرین کا تعلق اجانب دشمنی کی سوچ کی قائل اس پیگیڈا نامی تحریک سے تھا، جو اس سے پہلے جرمنی کے متعدد شہروں میں درجنوں بار اسلام اور تارکین وطن کے خلاف مظاہروں اور جلوسوں کا اہتمام کر چکی ہے۔
پراگ سے موصولہ دیگر رپورٹوں کے مطابق اسی طرح کا ایک احتجاجی مظاہرہ ہفتے کے روز چیک جمہوریہ کی آسٹریا کے ساتھ قومی سرحد کے قریب چَیسکے وَیلے نِتسے Ceske Velenice کے مقام پر بھی کیا گیا۔ وہاں بھی مظاہرین نے معمول کی ٹریفک بند کر دی۔
بعد ازاں چیک جمہوریہ کے ’اینٹی اسلام بلاک‘ کی طرف سے بتایا گیا کہ ان تینوں سابقہ سرحدی گزرگاہوں والی شاہراہوں کو بند کر دینے کا مقصد یورپی یونین کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کے خلاف احتجاج تھا۔
یورپی کمیشن نے ابھی حال ہی میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے باعث پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لیے رکن ملکوں کی انفرادی پالیسیوں کی بجائے یونین کو پورے بلاک کی سطح پر ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
آج کے احتجاجی مظاہروں کے بعد چیک جمہوریہ کے ’اسلام مخالف بلاک‘ کے بانی مارٹن کونوِتسکا نے کہا، ’’وہ (یورپی یونین) ہمارے بغیر ہی ہمارے بارے میں فیصلہ کرنا چاہتی ہے اور ایسے لوگوں (مہاجرین، مسلمانوں) کو ایسے ملکوں میں بھیجنا چاہتی ہے، جو ان تارکین وطن کو لینے پر تیار ہی نہیں ہیں۔‘‘
مارٹن کونوِتسکا، جو ایک یونیورسٹی ٹیچر ہیں، کا یہ موقف اپنی جگہ لیکن آئندہ دنوں میں انہیں لازمی طور پر ایک عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔ انہیں اپنے خلاف ایک مقدمے کی صورت میں ’لوگوں کو اسلام سے نفرت پر اکسانے‘ کے الزامات کا سامنا ہے۔