افغان ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی صفوں میں غیر ملکی جہادی شامل
10 دسمبر 2017شمالی صوبے جوزجان کے ایک ضلع درزاب کی ضلعی انتظامی کے نگران محمد داور نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ فرانس اور الجزائر سے تعلق رکھنے والے جہادی رواں برس نومبر میں افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔ کابل میں یورپی اور امریکی فوجی ذرائع نے داور کے دعوے کی تصدیق کی ہے۔ درزاب ضلع پر اسلامک اسٹیٹ کا غلبہ بتایا گیا ہے۔
افغانستان میں شیعہ مسلمانوں پر حملے، داعش کیا چاہتی ہے؟
افغانستان میں دو مساجد پر حملے، ہلاکتوں کی تعداد درجنوں میں
افغانستان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا صفایا کر دیں گے، امریکی جنرل
طالبان اور داعش نے درجنوں افغان شہری قتل کر دیے
افغانستان پہنچنے والے جہادیوں کی حتمی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ بعض رپورٹوں کے بعد ایسے دو سو جہادیوں نے درزاب کے نواحی گاؤں بی بی مریم کے قریب اپنا کیمپ قائم کر دیا ہے۔ مقامی لوگوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو ان کی تعداد دو سو تک بیان کی ہے۔ اس گروپ کے ایک سرکردہ شخص کو مقامی لوگ ’حاجی‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
یہ ضرور بتایا گیا کہ ان کے ہمراہ تقریباً پچاس بچے ہیں اور بعض کی عمریں دس برس تک ہیں۔ ان بچوں کو بھی جہادی بنانے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق مقامی لوگوں کے مطابق یہ جہادی لمبے تڑنگے اور صحت مند ہونے کے علاوہ فوجی وردیاں پہنے پھرتے ہیں۔
یہ جہادی اب وسطی ایشیائی ریاست ازبکستان کے ساتھ جڑے سرحدی علاقے میں پھیل چکے ہیں۔ ایسی بھی رپورٹس ہیں کہ یہ جہادی کابل پر سنگین حملوں میں شریک ہو چکے ہیں۔ افغان سرزمین پر قدم رکھتے وقت ان کے ہمراہ تاجک، چیچن اور ازبک مترجم بھی ہیں۔
جوزجان صوبے کے گورنر کے ترجمان محمد رضاغفوری کا کہنا ہے کہ درزاب علاقے میں قفقاذ علاقے کی لوگوں جیسی شبہات رکھنے والے لوگ دیکھے گئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق فرانسیسی زبان بولنے والے ان لوگوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں۔
افغان سکیورٹی ذرائع نے شمالی افغانستان میں جڑیں پکڑتی ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں فرانسیسی اور الجزائری جہادیوں کی موجودگی کو ایک نئے خطرے کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ یہ تنظیم پہلے ہی ننگر ہار اور کنڑ کے صوبوں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
مبصرین کے مطابق افغانستان میں فرانسیسی جہادیوں کی موجدگی یقینی طور پر فرانس کے حکومتی اور خفیہ حلقوں کے لیے یک نئی پریشانی بن سکتی ہے۔