افغان امن مذاکرات، امریکی مندوب اسلام آباد میں
18 جنوری 2019زلمے خلیل زاد اس وقت افغانستان میں جاری سترہ سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے .ہیں۔ وہ افغان طالبان کے ساتھ بھی جنگ حالات ختم کرنے اور امن کے قیام کے مذاکرات کر چکے ہیں۔ طالبان نے ایسے ہی مذاکرات کے اگلے دور میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
مبصرین کے مطابق افغان نژاد امریکی ایلچی پاکستانی حکومت سے طالبان قیادت کو مذاکراتی عمل میں شریک ہونے پر قائل کرنے کی مدد طلب کے خواہش مند ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے جمعہ اٹھارہ جنوری کو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس میں بھی ان کی حالیہ کوششوں کو گفتگو میں فوقیت دی گئی۔
امریکا کو یقین ہے کہ پاکستانی حکام طالبان قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت پر اُس کے مبینہ اثر و رسوخ کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں پاکستانی فوج نے ایک اہم طالبان رہنما حافظ محب اللہ کو ملکی سرحد کے قریب سے حراست میں بھی لیا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے لیے امریکی مندوب کا منصب گزشتہ برس ستمبر میں سنبھالا تھا۔ منصب سنبھالنے کے فوری بعد ہی سے انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کر رکھا ہے۔ اُن کے افغان تنازعے کے حوالے سے مرکزی ممالک کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری ہے اور وہ طالبان کو بھی پوری طرح قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ امن کی جانب راغب ہوں اور کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں۔
ابھی دو روز قبل سولہ جنوری کو افغان طالبان نے کہا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ رابطوں کے سلسلے کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس بیان میں طالبان نے واضح کیا تھا کہ امریکی سفیر کے علاقائی دورے سے مذاکراتی عمل کو تقویت حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ طالبان نے آخری وقت پر امریکی مندوب کے ساتھ نو اور دس جنوری کو ہونے والے مذاکرات میں شریک ہونے سے انکار کیا تھا۔
زلمے خلیل زاد اسلام آباد پہنچنے سے قبل بھارت، متحدہ عرب امارات اور چین کے دورے مکمل کر چکے ہیں۔ خلیل زاد نے کابل میں قیام کے دوران افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقاتوں میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے موضوع پر بات کی تھی۔ انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات جلد شروع کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔