افغان فورسز کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین
4 اپریل 2018حملے میں ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں تاہم افغان حکومت نے اقرار کیا ہے کہ افغان فورسز کے ضلع دشتِ ارچی میں ایک گاؤں پر کیے جانے والے فضائی حملے میں ہلاک ہونے والوں میں عام شہری بھی شامل ہیں۔
افغان صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ، ’’ افغان نیشنل آرمی نے انتہائی واضع طور پر ملنے والی معلومات کی روشنی میں کارروائی کرتے ہوئے ٹھکانے کو تباہ کرنے کی کوشش کی تاکہ کسی بڑی تباہی سے بچا جا سکے۔ لیکن بد قسمتی سے کارروائی کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔‘‘
پیر کے روز افغان فورسز کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملے کے حوالے سے مقامی افراد بتاتے ہیں کہ افواج کی جانب سے بمباری دستار بندی کی ایک تقریب پر کی گئی جہاں نوجوان، حافظ قرآن بننے کی خوشی منا رہے تھے۔
دشتِ ارچی کے ایک رہائشی سید جان کے مطابق دو اجتماعی قبریں بنائی گئی ہیں جس میں بمباری کے نتیجے میں مرنے والوں کی تدفین کی گئی ہے۔ ان کے مطابق، ’’ ایک قبر میں 16 جبکہ دوسری میں 21 افراد کی تدفین عمل میں آئی ہے۔ مرنے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے۔ ‘‘
دوسری جانب وزارت دفاع کے ترجمان محمد ردمنیش نے کابل میں ہوئی ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کے پاس فضا سے لی گئی ایک فوٹج ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کمپاؤنڈ میں طالبان جمع ہیں جنہوں نے اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر طالبانی اور پاکستانی پرچم نصب کیے ہوئے ہیں۔ یہاں آدھے سے زیادہ نشانہ بننے والے افراد کے جسموں پر گولیوں کے نشان ہیں جو طالبان کی جانب سے فائر کیے گئے تھے۔
افغان صوبے قندوز میں مدرسے پر فضائی حملہ، درجنوں ہلاکتیں
’آج زندگی بچا لی گئی تو کل خود کش حملے ميں ہلاک ہو سکتا ہوں‘
افغان وزارت دفاع کے ایک اور سینئر حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 35 طالبان ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ حکومت نے ایسے 13 افغان کمانڈروں کے ناموں کی فہرست بھی جاری کی ہے جو اس حملے میں مارے گئے۔
اس واقعے کے بعد افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مشن نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ان کے تفتیش کار حملے کا نشانہ بننے والے علاقے میں موجود ہیں اور شہریوں کو ہونے والے ’سنجیدہ نوعیت کے نقصان کی پریشان کن رپورٹس‘ کا جائزہ لیں۔