طالبان اقتدار میں ہلاکتوں اور تشدد پر اقوام متحدہ کی تنقید
21 جولائی 2022اقوام متحدہ نے طالبان پر الزام لگایا ہے کہ گزشتہ موسم گرما میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ افغانستان میں انسانی حقوق کی سینکڑوں خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ ادارے نے اس سلسلے میں بدھ کے روز جو نئی رپورٹ جاری کی ہے اس میں ان خلاف ورزیوں کی تفصیلات درج ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے کہا کہ ''اقتدار سے وابستہ حکام کے ارکان جس استثنی کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے رہے ہیں، اس پر ادارے کو کافی فکر لاحق ہے۔''
امدادی مشن نے کہا کہ مجموعی طور پر ملک بھر میں سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے، تاہم ایسا ایک بڑی قیمت چکا کر ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے نائب خصوصی نمائندے مارکس پوٹزیل نے کہا، ''ہماری تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ 15 اگست کے بعد سے سکیورٹی کی بہتر صورتحال کے باوجود افغانستان کے لوگ، خاص طور پر خواتین اور لڑکیاں، مکمل طور پر اپنے انسانی حقوق سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہے ہیں۔''
ہلاکت خیز حملوں کے پیچھے داعش
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں اگست 2021 سے لے کر اب تک 700 افراد ہلاک اور 1400 زخمی ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس 15 اگست کو ہی طالبان نے افغان دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ہلاکتوں کا تعلق ملک میں داعش (اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ) سے وابستہ گروپوں کے حملوں کی وجہ سے ہوئیں۔
تاہم امدادی مشن نے ماورائے عدالت قتل کے 160 الزامات، تشدد اور ناروا سلوک کے 56 واقعات اور سابق سرکاری اہلکاروں اور سکیورٹی فورسز کے خلاف 170 سے زائد من مانی گرفتاریوں اور حراستوں کے بارے میں بھی دستاویزات جاری کی ہیں۔
ان خلاف ورزیوں کے لیے طالبان کی اسلامی شعائر کی پاسبانی اور دین کی تبلیغ سے متعلق' وزارت دعوت و ارشاد امر بالعروف و نہی عن المنکر'کے ساتھ ساتھ جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلیجنس پر بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے بھی 87 واقعات کا ذکر کیا ہے، جس میں قتل، جنسی زیادتیاں، خود کشی، کم عمری میں شادی سمیت جبری شادیاں، حملے اور غیرت کے نام پر قتل کے بھی دو واقعات شامل ہیں۔
رپورٹ میں ایک مثال یہ بھی درج ہے کہ ایک جوڑے کو تو بغیر شادی کے تعلقات رکھنے کے الزام میں، سر عام سنگسار کر دیا گیا۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مشن کی سربراہ فیونا فریزر نے کہا کہ ایسے تمام واقعات کے لیے کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا اور ''استثنی کا غلبہ ہے۔'' انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے الزامات کی رپورٹنگ بھی بہت کم ہو سکتی ہے۔
افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے 173 صحافی اور میڈیا کارکنان بھی متاثر ہوئے ہیں، اور ان میں سے 163 واقعات کے لیے طالبان حکام کو ذمہ دار بتایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 122 صحافیوں کی من مانے طریقے سے گرفتار کیا گیا جبکہ 33 دھمکیوں کے واقعات شامل ہیں۔
طالبان نے الزامات مسترد کر دیے
طالبان نے انسانی حقوق سے متعلق اقوام کی رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح
اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا، ''من مانی گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل کی قطعی اجازت نہیں ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو بھی اس طرح کی خلاف ورزیوں کا مرتکب پایا جائے گا اسے مجرم سمجھا جائے گا اور اسے شرعی قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی صفوں کو ایسے عناصر سے پاک کرنے کا عمل بھی شروع کر دیا ہے جو ان کی ہدایات پر پوری طرح سے عمل نہیں کرتے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)