افغانستان: سات صوبوں میں سلامتی کے نگران خود افغان
22 مارچ 2011صدر حامد کرزئی نے منگل کو اعلیٰ فوجی اور پولیس عہدیداروں سے اپنے ایک خطاب میں اس منصوبے کی تفصیلات کا اعلان کیا۔ تفصیلات کے مطابق دارالحکومت کابل اور اس کے نواح علاقوں سمیت ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ، صوبہ پنج شیر ، صوبہ بامیان، ہرات، بلخ کے دارالحکومت مزار شریف اور صوبہ لغمان میں سکیورٹی کا انتظام افغان دستوں کے سپرد کر دیا جائے گا۔
امن و امان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ملک کے جنوبی اور مشرقی صوبے حساس تصور کیے جا رہے ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں محض ایک جنوبی صوبے ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ میں سکیورٹی کا انتظام نیٹو دستوں سے واپس لیا جا رہا ہے۔ ہلمند میں گزشتہ سال 30 ہزار امریکی فوجیوں کی آمد کے بعد سے کچھ سکون محسوس کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں 34 صوبے ہیں۔
اپنے خطاب میں صدر کرزئی نے کہا، ’’ہم نہیں چاہتے کہ دوسرے ہماری سلامتی اور دفاع کے ذمہ دار رہیں، میں ایک مرتبہ پھر مسلح مخالفین پر زور دیتا ہوں کہ حملوں اور ہلاکتوں کا سلسلہ بند کریں اور امن عمل میں شریک ہوں، دوسری صورت میں افغانستان میں غیر ملکیوں کی موجودگی کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔‘‘
کابل حکومت اور نیٹو کے مابین طے پایا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ افغان فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کریں گی اور نیٹو محض معاون کا کردار ادا کرے گا۔
افغان سکیورٹی دستوں کی صلاحیت پر اب بھی متعدد مبصرین کو بہت زیادہ بھروسہ نہیں۔ افغان فورسز کی جانب سے متعدد بار وسائل اور تربیت کی کمی کی شکایات کی جاتی رہی ہیں جبکہ حکومتی انتظام میں بدعنوانی کا عنصر بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
افغان صدر کرزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ ملک میں اس خونریز جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہر قیمت پر افغانستان کو امن کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ نکتہ اہم ہے کہ رواں سال جولائی سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کے آغاز کے بعد صورتحال کیا شکل اختیار کرتی ہے۔ افغانستان متعینہ غیر ملکی فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ حاضر سروس اور زیر تربیت افغان سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد کا اندازہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی کابل حکومت کو یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ فوجی انخلاء مرحلہ وار ہوگا اور اس کا بہت زیادہ انحصار حقیقی زمینی حالات پر ہو گا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک