پاکستان میں اسکول کی سطح سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک اس مفکر اور قومی شاعر کو ہر سال خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں، تقاریر کا انعقاد ہوتا ہے اور کہیں کہیں اقبال کے افکار پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ فلسفہ اقبال، ان کے افکار اور پیغام پر بات چیت کے لیے بڑی نامور ادبی اور علمی شخصیات کو زحمت دی جاتی ہے۔
اسرار و رموز کی باتیں ہوتی ہیں، اقبال کے کلام سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے اوراس طرح اس عظیم شاعر و مفکر کا ایک اور یوم پیدائش اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ اس امر پر روشنی ڈالے بغیر کہ اقبال کے افکار کو کس حد تک سمجھا گیا اور اس پر کتنا عمل ہوا؟
کیا آج کے دن پاکستانی معاشرے میں بچوں کے اندر اُس شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس پر علامہ محمد اقبال نے نہ صرف لفظی طبع آزمائی کی بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے جس کے ہر پہلو کو اجا گر کیا۔ انسان کو پہلے انسان اور پھر رنگ، نسل اور کسی مذہب کا پیروکار ہو کر سماجی زندگی گزارنے کا شعور دینا چاہا تھا۔
انسان کو بتایا کہ خودی کے معنی اور اس کی اہمیت کیا ہے۔ آزادی اور غلامی کا فرق بتایا، قوم اور ملت کا تصور دیا۔ انسان کے اشرف المخلوق ہونے کے اسباب بیان کیے۔ مرد و زن دونوں معاشرے کے لیے کیا حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے انفرادی اور اجتماعی حقوق و فرائض کو اجاگر کیا۔ قومی وقار اور جذبہ ملّی کے اصل معنی اور مفہوم پر روشنی ڈالی۔
غرض یہ کہ علامہ محمد اقبال نے انسانی زندگی کے ہر پہلو، معاشرہ، سیاست، معیشت، تعلیم و تربیت سے لے کر زماں و مکاں کے اسرار و رموز تک کو اپنے افکار و اشعار کے قالب میں ڈھال دیا۔ اس کا مقصد خوبصورت جلدوں میں بند ان ہیرے موتیوں کو بُک شلفس کی زینت بنا کر سجا کر رکھنا نہیں تھا۔ اقبال کا ایک ایک لفظ اپنے اندر ایک سمندر سموئے ہوئے ہے، اُس سے فیض یاب ہونے کا سلیقہ آنا ضروری ہے۔
پاکستان میں اس وقت 60 ملین افراد ناخواندہ ہیں۔ معاشرے کی کُل آبادی میں سے ان ناخواندہ افراد کو نکال دیں اور باقی آبادی، جو خواندہ کے زمرے میں آتی ہے، اس کی بات کر لیتے ہیں۔ ان میں سے کتنے فیصد ہیں جنہوں نے تعلیم کو شعور کے ساتھ حاصل کیا ہے؟ یعنی ان میں سے کتنے ہیں، جنہوں نے نصابی کتابوں کو رٹ کر امتحانوں میں کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ علم حاصل کیا ہے؟
پاکستانی سیاست، اصل قیمت یہ یتیم بچے ادا کریں گے
اس سوال کا جواب آپ کو باآسانی مل جاتا ہے۔ ذرا پاکستانی معاشرے کے نام نہاد تعلیم یافتہ طبقے کے بالغ افراد کے ساتھ بات چیت کر کے دیکھ لیں، ان میں سے اکثر کو شاید نت نئی ٹیکنالوجی کا استعمال آتا ہو گا، اکثر انگریزی زبان بول لیتے ہوں گے، جو بہت ذہین اور تعلیم یافتہ مانے جاتے ہیں، انہیں انگریزی زبان کے چند مفکرین، شعراء، فلسفیوں اور سائنسدانوں کیساتھ ساتھ معروف سیاستدانوں اور فنکاروں کے نام بھی آتے ہوں گے۔ لیکن پاکستان کے نام نہاد پڑھے لکھے طبقے کی اکثریت سے اس سے زیادہ توقع رکھنا ان کے اور اپنے ساتھ زیادتی ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ پاکستان میں حقیقی علم و دانش رکھنے والے بالکل ناپید ہیں، آٹے میں نمک کے برابر ایسے نایاب لوگ پاکستان میں یقیناً پائے جاتے ہیں لیکن یہاں بات اکثریتی عوام کی ہو رہی ہے۔
پاکستان کے قیام کے پچھتر سال مکمل ہو چُکے ہیں۔ ملک اور معاشرے کے موجودہ حالات دیکھیں تو لگتا ہے یہ ملک جغرافیائی طور پر تو وجود رکھتا ہے تاہم نظریاتی طور پر اس کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے، جس میں ارباب اختیار سود فراموش اور عوام محو غم دوش نظر آتے ہیں۔ مذہب کی دکان داری چلانے والے کوئی گُل تو نہیں کہ خاموش رہیں اور جو جرات آموز اپنے تاب سخن کو بروئے کار لانے کی کوشش کرے، اُسے پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔
آج کے پاکستان میں کاخ امرا کے در و دیوار ہلانے کی کوشش کرنے والے کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے۔ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے گرمانے کی بجائے ان کے گلے گھونٹے جا رہے ہیں۔ کیا پاکستان میں سلطانی جمہور کا دور حقیقی معنوں میں آیا؟ ہر گز نہیں اگر ایسا ہوتا تو اس معاشرے میں نقش کہن کو مٹانے کی کوشش کی جاتی۔ اقبال نے تو ایسے کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلانے کی بات کی تھی، جس سے دہقان کو روزی تک میسر نہ ہو۔ آج کے پاکستان میں ایک سوکھی روٹی پچاس روپے کی بک رہی ہے، جسے خریدنے کا متحمل ایک غریب انسان نہیں ہو سکتا۔
اقبال نے ایسے حرم و دیر کے چراغوں کو بجھا دینے کو کہا تھا، جہاں دکھاوے کے سجدے اور نمائشی ریت و رواج ادا کیے جاتے ہیں۔ اقبال مرمر کی سلوں سے بیزار تھے۔ انہوں نے اپنے لیے مٹی کے حرم کی تعمیر کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ کیا آج کے پاکستان میں شاندار عمارتوں والی مساجد کی کمی ہے؟
ہر گز نہیں۔ جب کوئی صاحب فہم و ذکا اپنے قلم کی تلوار استعمال کرنے کو کوشش کرتا ہے تو اُس کا انجام ارشد شریف جیسا ہوتا ہے، جسے دیار غیر کی سر زمین پر بے دردی سے مار دیا جاتا ہے اور پھر اس کی نماز جنازہ ملک کی سب سے بڑی اور تزئین و آرائش کا شاہکار مسجد میں ہزاروں کے مجمعے کیساتھ ادا کی جاتی، اُسے سب سے کشادہ اور انتہائی پُر فضا قبرستان میں دفنا دیا جاتا ہے۔
آج پاکستان کا ایک مراعت یافتہ طبقہ جدید دور کی تمام آسائشوں اور جدید تہذیب کی چکا چوند سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہو رہا ہے، دوسری جانب 80 فیصد عوام غربت، افلاس، ناگہانی آفات، سیاسی کرتب بازیوں اور اقتدار کے بھوکے مداریوں کی رسہ کشی میں پس رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا ایک چھوٹا مگر بے حد بااثر طبقہ اقبال کے تصور '' تہذیب نو کے کار گہہ شیشہ گراں‘‘ میں رہتا ہے۔
افسوس یہ کہ اس شیشے کے محل میں رہنے والوں کو خود اپنا مسخ چہرہ نظر نہیں آتا۔ اقبال نے ایک علامت کے طور پر کہا تھا کہ '' آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو‘‘۔ یعنی عوام میں مروجہ نام نہاد 'تہذیب نو‘ کی خرابیوں اور کمزوریوں، عدم مساوات، سماجی اور اقتصادی ناانصافیوں کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لیے مفکرین اور دانشوروں کو کوئی جنون سوار کرنا ہوگا، جس میں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس ناقص مروجہ تہذیب کو ختم کر کے نیا نظام لا سکیں۔ عوامی خوشحالی اور عالمی امن اس کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کو ایک آزاد، خود مختار اور باوقار ریاست کے طور پر اُبھرتے دیکھنے کا خواب، جس نے دیکھا تھا، وہ آج پاکستانی عوام کو ایک بار پھر یہ پیغام دینا چاہتا ہے،
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔