1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقلیتوں کے لئے نصابی کتب: نفرت انگیز مواد کا خاتمہ

عبدالستار، اسلام آباد
27 اپریل 2021

عمران خان کے مشیر مولانا طاہر اشرفی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے نصاب میں کوئی نفرت آمیز مواد موجود نہیں ہے۔ ان کے مطابق حکومت غیر مسلم اقلیتوں کے لیے نصاب میں ایسا مضمون شامل کرنے والی ہے جو ان کے مذاہب بارے ہو گا۔

https://p.dw.com/p/3se6e
Pakistan Feierlichkeiten 550. Geburtstag Religionsstifter Nanak Dev
تصویر: Tanvir Shehzad

وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے مشرق وسطی اور بین المذاہب ہم آہنگی مولانا  طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں نہ پہلے کوئی نفرت انگیز مواد موجود تھا اورنہ اب ہے۔ پہلے بھی اقلیتوں کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ اسلامیات پڑھیں یا نہ پڑھیں اور ان کے پاس اب بھی اختیار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب ہندو، عیسائی اور دوسری اقلیتیں اپنے مذاہب کے حوالے سے  مضامین بھی پڑھ سکیں گی۔

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا بل کیوں مسترد ہو گیا؟

کوئی نفرت آمیز مواد نہیں

مولانا  طاہر اشرفی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کچھ عناصر کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ حمد اور نعت کو نصابی کتب میں شامل نہ کیا جائے، لیکن قومی اقلیتی کمیشن کے ارکان نے اس طرح کا کوئی اعتراض نہیں لگایا، پاکستان میں اسلام اور آئین کے مطابق اقلیتوں کو تمام حقوق دیے جا رہے ہیں۔‘‘ پاکستان میں کئی حلقے ماضی میں نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یکساں نصاب پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔

Pakistan Hindu-Tempel in Mansehra
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے شہر مانسہرہ میں واقع ایک ہندو مندر میں ایک زائر عبادت کرتے ہوئےتصویر: DW/S. Khan

نصاب میں تبدیلی کی ضرورت

پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اردو اور انگلش کی لازمی کتابوں میں 33% مواد ایسا ہے جو صرف مسلمانوں کے حوالے سے ہے۔ مسلمانوں کے حوالے سے جو بھی چیزیں ہیں وہ اسلامیات میں رکھی جائیں اور انہیں لازمی مضامین سے نکالا جائے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب کی طرح سندھ اور بلوچستان بھی ایسے مواد کو ختم کر دینگے لیکن مسئلہ کے پی کے میں ہوگا جہاں ماضی میں بھی سب سے زیادہ نفرت انگیز مواد نصاب میں موجود تھا۔‘‘

جماعت احمدیہ اپنی ویب سائٹ بند کرے، پاکستان

نصاب سیکولر ہونا چاہیے

 پروفیسر کے ایس ناگپال کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہندو دھرم کے حوالے سے کتابوں کی آؤٹ لائن لکھ دی ہے، دوسرے مذاہب کے لوگوں کی بھی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ ڈاکٹر وانکوانی کا کہنا تھا کہ یہ کتابیں عیسائی، سکھ، ہندو اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے ہوں گی۔

پاکستان ہندو فورم کے سربراہ ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے مخالف ہیں کہ نصاب کو مذہبی بنیادوں پر تشکیل دیا جائے بلکہ نصاب کو سیکولر ہونا چاہیے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے سینٹر فارسوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب  نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " سپریم کورٹ نے ہماری بات سے اتفاق کیا کہ اردو اور انگریزی کے مضامین میں مذہبی مواد نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت نے حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔‘‘

Weihnachten in Pakistan
پشاور میں ایک سو اڑتیس سال قبل تعمیر کیا گیا گرجا گھرتصویر: Faridullah Khan

منارٹیز الائنس پاکستان کے وائس چیئرمین شمعون ایلفریڈ گل بھی سیکولرنصاب کے حامی ہیں۔

خیر مقدم

تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے مسیحی رہنما اقبال دانیال کھوکھر کا کہنا ہے غیرمسلم پاکستانیوں کے لئے ان کے اپنے مذہب کی کتابوں سے پڑھانا ایک بہت مثبت قدم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان میں بہت سارے مسائل اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ مسلمان پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانیوں میں کئی معاملات میں تفہیم نہیں ہے۔‘‘

مندر کی حفاظت میں ناکامی، ایک درجن پولیس اہلکار برخاست

سماجی انتشاراور انتظامی مسائل

تاہم بعض حلقوں کا دعوی ہے کہ اس سے سماجی انتشار پڑے گا۔  ڈاکٹر ناگپال کا کہنا ابھی تو بہت سارے غیر مسلم پاکستانیوں کی شناخت چھپی رہتی ہے لیکن جب وہ اس مضمون کا انتخاب کریں گے تو فورا ہی ان کی شناخت ظاہر ہوجائے گی جس سے ان کو خطرات لاحق ہوں گے۔

ڈاکٹر جے پال کا کہنا ہے کہ حکومت  نے اس مضمون کے بنانے کی نوید سنا دی لیکن اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا۔ '' اگر ایک اسکول میں چار ہندو، دو عیسائی اور ایک سکھ طالب علم ہے۔ تو کیا ان کے لئے علیحدہ علیحدہ استادوں کا تقرر کیا جائے گا۔

Pakistan Feierlichkeiten 550. Geburtstag Religionsstifter Nanak Dev
سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک جی کے پانچ سو پچاسویں جنم دن پر سیالکوٹ کے نزدیک کرتار پور میں سکھ زائرین اپنے مقدس مقام پرتصویر: Tanvir Shehzad

بھرپور مخالفت

کچھ اقلیتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس حکومتی کوشش کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔ دلت سجاگ تحریک کی چیئرپرسن رادھا بھیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی تحریک اس حکومتی کوشش کی بھرپور مزاحمت کرے گی۔ "ہندو دھرم کے حوالے سے کسی مضمون کو نصاب میں شامل کرنا اور اس کو پڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ منوسمرتی کے قوانین پڑھائے جائیں گے جو نچلی ذات کے ہندوؤں کو کسی طور پر قبول نہیں ہے کیونکہ اس سے ہمارے بچوں میں احساس محرومی پیدا ہوگا۔ ہم ایسے کسی بھی مضمون کی نہ صرف مخالفت کریں گے بلکہ اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔‘‘