اقلیتوں کے لئے نصابی کتب: نفرت انگیز مواد کا خاتمہ
27 اپریل 2021وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے مشرق وسطی اور بین المذاہب ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں نہ پہلے کوئی نفرت انگیز مواد موجود تھا اورنہ اب ہے۔ پہلے بھی اقلیتوں کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ اسلامیات پڑھیں یا نہ پڑھیں اور ان کے پاس اب بھی اختیار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب ہندو، عیسائی اور دوسری اقلیتیں اپنے مذاہب کے حوالے سے مضامین بھی پڑھ سکیں گی۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا بل کیوں مسترد ہو گیا؟
کوئی نفرت آمیز مواد نہیں
مولانا طاہر اشرفی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کچھ عناصر کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ حمد اور نعت کو نصابی کتب میں شامل نہ کیا جائے، لیکن قومی اقلیتی کمیشن کے ارکان نے اس طرح کا کوئی اعتراض نہیں لگایا، پاکستان میں اسلام اور آئین کے مطابق اقلیتوں کو تمام حقوق دیے جا رہے ہیں۔‘‘ پاکستان میں کئی حلقے ماضی میں نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یکساں نصاب پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
نصاب میں تبدیلی کی ضرورت
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اردو اور انگلش کی لازمی کتابوں میں 33% مواد ایسا ہے جو صرف مسلمانوں کے حوالے سے ہے۔ مسلمانوں کے حوالے سے جو بھی چیزیں ہیں وہ اسلامیات میں رکھی جائیں اور انہیں لازمی مضامین سے نکالا جائے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب کی طرح سندھ اور بلوچستان بھی ایسے مواد کو ختم کر دینگے لیکن مسئلہ کے پی کے میں ہوگا جہاں ماضی میں بھی سب سے زیادہ نفرت انگیز مواد نصاب میں موجود تھا۔‘‘
جماعت احمدیہ اپنی ویب سائٹ بند کرے، پاکستان
نصاب سیکولر ہونا چاہیے
پروفیسر کے ایس ناگپال کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہندو دھرم کے حوالے سے کتابوں کی آؤٹ لائن لکھ دی ہے، دوسرے مذاہب کے لوگوں کی بھی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ ڈاکٹر وانکوانی کا کہنا تھا کہ یہ کتابیں عیسائی، سکھ، ہندو اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے ہوں گی۔
پاکستان ہندو فورم کے سربراہ ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے مخالف ہیں کہ نصاب کو مذہبی بنیادوں پر تشکیل دیا جائے بلکہ نصاب کو سیکولر ہونا چاہیے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے سینٹر فارسوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " سپریم کورٹ نے ہماری بات سے اتفاق کیا کہ اردو اور انگریزی کے مضامین میں مذہبی مواد نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت نے حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔‘‘
منارٹیز الائنس پاکستان کے وائس چیئرمین شمعون ایلفریڈ گل بھی سیکولرنصاب کے حامی ہیں۔
خیر مقدم
تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے مسیحی رہنما اقبال دانیال کھوکھر کا کہنا ہے غیرمسلم پاکستانیوں کے لئے ان کے اپنے مذہب کی کتابوں سے پڑھانا ایک بہت مثبت قدم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان میں بہت سارے مسائل اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ مسلمان پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانیوں میں کئی معاملات میں تفہیم نہیں ہے۔‘‘
مندر کی حفاظت میں ناکامی، ایک درجن پولیس اہلکار برخاست
سماجی انتشاراور انتظامی مسائل
تاہم بعض حلقوں کا دعوی ہے کہ اس سے سماجی انتشار پڑے گا۔ ڈاکٹر ناگپال کا کہنا ابھی تو بہت سارے غیر مسلم پاکستانیوں کی شناخت چھپی رہتی ہے لیکن جب وہ اس مضمون کا انتخاب کریں گے تو فورا ہی ان کی شناخت ظاہر ہوجائے گی جس سے ان کو خطرات لاحق ہوں گے۔
ڈاکٹر جے پال کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس مضمون کے بنانے کی نوید سنا دی لیکن اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا۔ '' اگر ایک اسکول میں چار ہندو، دو عیسائی اور ایک سکھ طالب علم ہے۔ تو کیا ان کے لئے علیحدہ علیحدہ استادوں کا تقرر کیا جائے گا۔
بھرپور مخالفت
کچھ اقلیتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس حکومتی کوشش کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔ دلت سجاگ تحریک کی چیئرپرسن رادھا بھیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی تحریک اس حکومتی کوشش کی بھرپور مزاحمت کرے گی۔ "ہندو دھرم کے حوالے سے کسی مضمون کو نصاب میں شامل کرنا اور اس کو پڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ منوسمرتی کے قوانین پڑھائے جائیں گے جو نچلی ذات کے ہندوؤں کو کسی طور پر قبول نہیں ہے کیونکہ اس سے ہمارے بچوں میں احساس محرومی پیدا ہوگا۔ ہم ایسے کسی بھی مضمون کی نہ صرف مخالفت کریں گے بلکہ اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔‘‘