1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا ایک اور دور مکمل

12 اگست 2019

افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور ختم ہو گیا ہے۔ اس مذاکراتی دور میں بھی فریقین کوئی حتمی ڈیل طے کرنے سے قاصر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3NkfL
Katar | Friedenskonferenz Afghanistan
تصویر: AFP/Getty Images/K. Jaafar

خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور اتوار اور پیر کی نصف شب میں ختم ہو گیا۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق اس مذاکراتی دور میں امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا پر اتفاق کیا ہے۔

اگلے مذاکراتی دور کے شروع ہونے کا جلد اعلان کیا جائے گا۔ طالبان کے نمائندے اگلے مرحلے کے لیے اپنے رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کریں گے۔ اسی طرح امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد بھی مزید پیش رفت کے لیے امریکی وزارت خارجہ کے ساتھ بات چیت کریں گے۔

اب تک امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آٹھ راؤنڈ مکمل ہو چکے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امن بات چیت کے آٹھویں دور کو طویل اور مفید قرار دیا۔

تجزیہ کاروں کا اندازہ تھا کہ مذاکرات کے آٹھویں دور میں حتمی امن معاہدہ طے کر لیا جائے گا، تاہم ایسے اندازے درست ثابت نہیں ہوئے۔ ماہرین کے مطابق بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ابھی بھی بعض امور کو حل کرنے کے لیے فریقین کو پچیدگیوں کا سامنا ہے۔

US-Sondergesandter Khalilzad für Afghanistan
طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکی نمائندگی زلمے خلیل زاد کر رہے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/K. Jaafar

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ حتمی امن ڈیل میں طالبان کی ضمانتیں بھی شامل ہوں گی کہ وہ افغانستان میں کسی دوسرے انتہا پسند گروپ کے افزائش کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسی معاہدے میں افغانستان میں جنگ بندی اور کابل حکومت کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت بھی شامل کی جا سکتی ہے۔

ابھی تک طالبان افغانستان میں قائم حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اُن کے خیال میں یہ امریکی کٹھ پتلی حکومت ہے اور ان سے بات چیت فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔

دوحہ میں ختم ہونے والے راؤنڈ سے متعلق ابھی تک کوئی امریکی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ امریکا اس کوشش میں ہے کہ طالبان کے ساتھ پہلی ستمبر تک کوئی امن ڈیل طے کر لی جائے۔ اس تناظر میں اگلے مذاکراتی دور کے جلد شروع ہونے کا امکان ہے۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ اُن کے ملک کی عوام مستقبل میں اپنے ملک میں کسی بھی قسم کی غیر ملکی مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے اور ایسے اقدامات کو فوری طور پر مسترد بھی کریں گے۔ غنی نے یہ بیان عیدالاضحیٰ کے موقع پر دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگلے مہینے کے صدارتی انتخابات اس لیے اہم ہیں کہ اس ملک کو الیکشن کے بعد ایک طاقتور لیڈر کی رہنمائی حاصل ہو سکے گی۔

ع ح، ش ح ⁄ ڈی پی اے، اے پی

طالبان کے خطرے نے امریکا کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا