امریکا: کرفیو کے باوجود بیشتر شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری
3 جون 2020امریکی حکام نے مظاہرین پر قابو پانے اور لوٹ مار روکنے کے لیے تقریباً 40 شہروں میں کرفیو نافذ کردیا ہے لیکن اس کے باوجود احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ جارج فلوئیڈ کے قتل کے خلاف احتجاج اور انصاف کے لیے وائٹ ہاؤس کے باہر اور نیویارک سمیت بیشتر بڑے شہروں میں مظاہرے ہورہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین کی ایک بڑی بھیڑ نے صدر ٹرمپ کے خلاف جم کر نعرے بازی کی اور گھنٹوں تک مظاہرہ چلتا رہا ہے۔ صورتحال کے پیش نظر حکام نے واشنگٹن میں بھی سخت کرفیو کا اعلان کیا تاہم اس کا کوئی خاص اثر نہیں دکھا ئی دیا اور کرفیو کے باوجود مظاہرین کی ایک بڑی تعداد وہیں ڈٹی رہی۔
ادھر نیویارک میں بھی رات کا کرفیو آئندہ اتوار تک بڑھا دیا گیا ہے اور انتظامیہ نئے احتجاجی مظاہروں کو کنٹرول کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ نیو یارک میں رات کو کرفیو نافذ کیا گیا جس کے بعد کچھ مظاہرین تو رات کو گھر چلے گئے تاہم ایک بڑی تعداد اس کے باوجود سڑکوں پر ہی جمی رہی۔
اٹلانٹا، شکاگو اور لاس انجیلس جیسے شہروں میں بھی مظاہرین کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اٹلانٹا میں نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا گیا ہے اور انہیں کرفیو کے بعد مظاہرین کو منشتر کرتے دیکھا گیا۔ وائٹ ہاؤس کے باہر بھی مظاہرین پر نظر رکھنے کے لیے نیشنل گارڈز کو تعینات کیا گیا ہے۔ بعض سکیورٹی ماہرین نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے لیے انتظامیہ پر سخت تنقید کی ہے۔
امریکا میں پولیس کی زیادتیوں اور جارج فلوئیڈ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس کے خلاف غم و غصے کی لہر اب عالمی سطح پر پھیلتی جا رہی ہے۔ پیرس، برلن اور کوپن ہیگن سمیت یورپ کے مختلف شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ اور آسٹرلیا میں بھی نسل پرستی اور پولیس کے امتیازی سلوک کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا ہے۔
یورپی یونین میں خارجی امور کے سربراہ بوریل کا کہنا ہے کہ یونین جارج فلوئیڈ کی موت سے صدمے میں ہے۔ انہوں نے اس قتل کو طاقت کا بے جا استعمال بتاتے ہوئے کہا، ''تمام معاشروں کو طاقت کے ضرورت سے زیادہ اور بے جا استعمال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔'' انہوں نے کہا کہ یونین پر امن مظاہروں کی حمایت میں ہے اور نسل پرستی اور تشدد کے خلاف ہے۔
ادھر پینٹا گون کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں اس نے 1600 فوجیوں کو واشنگٹن کے ایک فوجی اڈے پر روانہ کیا ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ یہ قدم موجودہ صورت حال کے پیش نظر سول حکام کی مدد کے لیے احتیاطی منصوبے کے طور پر اٹھا یا گیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کے احکامات کے بعد فوجیوں کی ٹکڑیاں روانہ کی گئی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر ریاستیں مظاہروں پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہیں تو وہ فوج کو تعینات کر دیں گے۔ لیکن سکیورٹی ماہرین اور سیاسی حلقوں نے فوج کو اپنے ہی شہریوں کے سامنے کھڑا کرنے کے موقف کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔
اس دوران جاج فلوئیڈ کی اہلیہ روکسی واشنگٹن، جو ان کی چھ برس کی بیٹی کی ماں بھی ہیں، نے کہا ہے کہ جارج ایک اچھے والد تھے اور اب وہ اپنے بیٹی کو بڑا ہوتے کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ انہوں نے کہا، ''میں یہاں جارج اور اپنی بیٹی کے لیے کھڑی ہوں، کیونکہ مجھے انصاف چاہیے۔ جس کی جو مرضی ہو سوچے لیکن حقیقت میں وہ ایک اچھے انسان تھے۔''
46 سالہ جارج فلوئیڈ کو ریاست مِنیسوٹا کے مرکزی شہر منی ایپلس میں چار سفید فام پولیس والوں نے حراست میں لیا تھا۔ اس سے متعلق ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ سڑک پر پیٹ کے بل پڑے ہوئے ہیں اور ایک پولیس اہلکار اپنے گھٹنے سے ان کی گردن پر پوری طاقت سے دباوڈال رہا ہے۔ فلوئیڈ کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور وہ پولیس سے التجا کررہے تھے ''پلیز، مجھے سانس لینے میں پریشانی ہورہی ہے۔ مجھے جان سے نہ مارنا۔'' لیکن پولیس کی کارروائی کے چند منٹوں کے اندر جارج کا وہیں سڑک پر دم نکل جاتا ہے۔
ادھر امریکا کے معروف ریپر جے زیڈ نے جارج فلوئیڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تمام امریکی اخبارات میں مکمل صفحے کا ایک اشتہار جاری کیا ہے۔ انسٹاگرام پر دستیاب اس اشتہار میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے سن 1965 کے ایک خطاب کا اقتباس بھی شامل ہے۔ اس پر جے زیڈ اور بعض ان افراد کے دستخط ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو پولیس زیادتیوں کے سبب کھو دیا۔ اسے نیو یارک ٹائمز، دی شکاگو ٹریبیون، لاس اینجلس ٹائمز اور دی ڈینور پوسٹ جیسے معروف اخبارات میں شائع کرایا گیا ہے۔
ص ز/ ج ا (ایے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)