امریکی انخلا: کیا پاکستانی موقف درست تھا؟
31 اگست 2021ملک میں کئی حلقوں کا حکومت کی طرف سے امریکی و غیر ملکی فوجیوں کو ملک کے مختلف علاقوں میں ٹھہرانے پر بھی تنقید ہورہی ہے۔ کچھ مذہبی عناصر نے تو یہاں تک بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان میں کئی جاسوس ہوسکتے ہیں اور حکومت نے ایسا کیوں کیا ہے۔
دوسری طرف حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کو اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھانا چاہیے اور یہ کہ اسلام آباد نے عالمی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے ایسا کیا ہے۔
افغانستان سے انخلا کے فیصلے سے امریکیوں کی اکثریت ناخوش
خدشات ماضی کے تجربات کی بنیاد پر ہیں
ملک میں کئی حلقے خصوصا مذہبی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرتی پھرتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن نے اس معاملے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
جماعت اسلامی کے ایک رہنما اور رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے خدشات کی بنیاد ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہیں۔ کیا ماضی میں بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس جیسے ایجنٹوں نے پاکستان کے خلاف کام نہیں کیا۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ یہ فوجی یا غیر ملکی بھارت کیوں نہیں جا سکتے؟ ان کی آمد کے حوالے سے پارلیمنٹ کو کیوں اطلاع نہیں دی گئی؟
جماعت اسلامی کے رہنما نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ان کے قیام کی مدت کو بڑھایا جا سکتا ہے،''ہم ایک غلام قوم ہیں، بس حکم ملتا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں، خدشہ ہے کہ کل امریکہ کہے گا کہ اس کے اہداف پورے نہیں ہوئے ہیں اور ان فوجیوں کے قیام کی مدت میں اضافہ کیا جائے، کل اسمبلی میں اس مناسبت سے ایک قرارداد بھی جمع کرارہے ہیں۔‘‘
بھارت میں موجود افغان سکھوں کی وطن واپسی کی خواہش
منفی پروپیگنڈہ
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ صرف منفی پروپیگنڈہ ہے کہ غیر ملکیوں کی آڑ میں پاکستان میں جاسوس آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے اور افغان حکومت کے وہ عناصر جو پاکستان کے خلاف تھے، ان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان آنے کی اجازت دی گئی اور غیر ملکیوں کو بھی یہ اجازت دی گئی۔‘‘
محمد اقبال خان کے بقول یہ پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داری تھی، جس کو اس نے نبھایا۔ ''ان افراد میں اکثریت غیر ملکی شہریوں کی ہے، ان میں کوئی جاسوس نہیں ہے، جیسا کہ کچھ عںاصر دعویٰ کررہے ہیں۔ ان میں سے کچھ چلے گئے ہیں اور بقیہ کچھ ہفتوں یا دنوں میں چلے جائیں گے۔‘‘
پاکستانی موقف کی فتح
امریکہ اور اس کے اتحادی دو دہائیوں تک افغانستان کے مسئلے کو طاقت کے بل بوتے پر حل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وزیر اعظم عمران خان سمیت ملک کے کئی رہنما اس مسئلے کے سیاسی حل پر زور دیتے رہے۔ امریکی انخلا کے بعد پاکستان میں کئی حلقے یہ دعوی کررہے ہیں کہ یہ پاکستان کے موقف کی سچائی ہے، جو اب ثابت ہوگئی ہے۔
افغانستان: امریکی انخلا مکمل، کابل ایئر پورٹ پر طالبان کا کنٹرول
معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا نے پاکستان کے موقف کو صحیح ثابت کردیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب امریکی صدر بش نے پہلی مرتبہ جنرل مشرف سے ملاقات کی تو مشرف نے انہیں مشورہ دیا کہ اس کا سیاسی حل ڈھونڈا جائے، پاکستان اس کے بعد بھی اس بات کا کئی مرتبہ اعادہ کرتا رہا لیکن ہماری نہیں سنی گئی، بالا آخر حالات و واقعات نے پاکستانی موقف کو درست ثابت کیا۔‘‘