امریکی وزیر خارجہ کا ایک اور مشرق وسطیٰ کا دورہ
29 دسمبر 2013امریکی وزارت خارجہ کے اعلان کے مطابق وزیر خارجہ جان کیری اسرائیلی قیادت اور فلسطینی لیڈروں سے مزید ملاقاتوں اور امن بات چیت کی تازہ صورت حال کا جائزہ لینے یروشلم اور راملہ کا دورہ کریں گے۔ وہ آئندہ بدھ کے روز یروشلم پہنچیں گے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ کیری رواں برس اپنی کوششوں سے شروع ہونے والے امن مذاکرات کے عمل کو کسی طرح بھی دوبارہ تعطل کا شکار نہ ہونے کی کوششوں میں ہیں۔ دو چار ہفتے قبل کیری نے کہا تھا کہ اگلے سال اپریل کے اختتام تک اسرائیلی اور فلسطینی ایک امن فریم ورک کے خد و خال کو طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
دو تین روز قبل ایک اسرائیلی اہلکار نے بتایا تھا کہ اگلے ہفتے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسیطنی قیدیوں کی تیسری کھیپ رہا کر دی جائے گا، تاہم اس موقع پر مزید یہودی بستیوں کی تعمیر کا اعلان بھی ہو گا۔ اسرائیل اور فلسطینی انتظامیہ کے درمیان جاری براہ راست امن مذاکرات کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسیطنی قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل اگلے ہفتے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے مقبوضہ علاقوں میں نئی یہودی آباد کاری کے لیے ٹینڈر بھی جاری کرنے والا ہے۔
فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات کے مطابق اگر اسرائیل نئی یہودی آباد کاری کے لیے ٹینڈر جاری کرتا ہے تو اِس سے موجودہ امن مذاکرات کی موت واقع ہو جائے گی۔ فلسطینیوں کے نزدیک مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاری کا عمل امن مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسرائیل نئی یہودی آباد کاری مشرقی یروشلم، غزہ پٹی اور ویسٹ بینک میں جاری رکھے ہوئے ہے۔
جان کیری بدھ کے روز یروشلم پہنچ کر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ امن بات چیت کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔ بعد میں وہ راملہ جا کر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی کے مطابق بینجمن نیتن یاہو اور محمود عباس کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں وزیر خارجہ، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات کو بھی زیر بحث لائیں گے۔
جان کیری کی خواہش ہے کہ فریقین دو ریاستی حل پر متفق ہوتے ہوئے ایک دائمی امن کے ابتدائی فریم ورک کو طے کر لیں۔ فریم ورک عبوری معاہدے کی بنیاد ہو گا۔ یہ فریم ورک اپریل کے آخر تک مکمل کرنے پر اسرائیل اور فلسطینی مذاکرات کار بات چیت کے عمل میں مصروف ہیں۔ ابتدائی فریم ورک کے بعد حتمی معاہدے کے لیے مزید ایک سال پر محیط مذاکراتی عمل ہو گا۔ اس طرح اگر معاملات اسی مطابق رہے تو سن 2015 میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک حتمی معاہدہ طے پا سکے گا۔