انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیں گے، حماس
13 فروری 2011محمود عباس نے انتخابات منعقد کرانے کا اعلان قاہرہ میں حسنی مبارک کی جانب سے صدارت کا منصب چھوڑنے کے اعلان کے صرف ایک دِن بعد ہفتہ کو کیا۔ فلسطینی حکام نے کہا کہ مصر میں جو تبدیلی آئی ہے، فلسطینیوں کو اس سے متحد ہونے کی تحریک ملنی چاہیے۔
محمود عباس کے ایک معاون یاسر عابد نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’فلسطینی اتھارٹی نے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ستمبر سے قبل کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ فریقین پر اپنے اختلافات بھلانے پر زور دیتی ہے۔ یوں انہوں نے عباس کی مغربی کنارے پر قائم حکومت اور غزہ پٹی کا کنٹرول سنبھالنے والی حماس تنظیم کے درمیان مخالفت کا واضح حوالہ دیا۔
دوسری جانب حماس کے ترجمان Fawzi Barhoum نے کہا ہے کہ عباس مغرب کی حمایت سے 2005ء سے صدارت کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں اور وہ ایسا اعلان کرنے کا قانونی حق نہیں رکھتے۔
انہوں نے خبررساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ’حماس ان انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔ ہم انہیں قانونی حیثیت نہیں دیں گے، اور نہ ہی ہم نتائج تسلیم کریں گے۔‘
واضح رہے کہ فلسطینی فریقین کے درمیان انتخابی قوانین کی تشریح پر بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ قبل ازیں ہونے والی ووٹنگ اسی لیے منسوخ کرنا پڑی تھی کہ ان کے درمیان مصالحتی معاہدہ نہیں ہو سکا تھا۔
یاسر عابد کا کہنا ہے کہ نئی آئینی کونسل میں اختلافات ختم کیے جا سکتے ہیں اور یہ کونسل انتخابات کے بعد بنائی جائے گی۔
گزشتہ پارلیمانی انتخابات 2006ء میں ہوئے تھے، جن میں حماس کو فتح ہوئی تھی۔ اس کے ایک سال بعد انہوں نے عباس کی فورسز کو نکال کر غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
قبل ازیں اعلیٰ فلسطینی مذاکرات کار صائب عُریقات مستعفی ہو گئے تھے۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ متعدد مذاکراتی نشستوں کی قیادت کر چکے ہیں۔ رملہ میں حکام نے بتایا کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ ہفتہ کو پیش کیا ہے، جو دراصل مذاکراتی عمل کی بحالی میں حائل ڈیڈلاک کے باعث سامنے آیا ہے۔ تاہم یاسر عابد کا کہنا ہے کہ محمود عباس نے عریقات کا استعفیٰ تاحال منظور نہیں کیا۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: کشور مصطفیٰ