1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’انتخابی کامیابی قانونی اور جائز‘، حسینہ واجد

امجد علی6 جنوری 2014

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے آج ڈھاکہ میں غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو میں اس بات پر اصرار کیا کہ اپوزیشن کی طرف سے بائیکاٹ کے باوجود منعقدہ انتخابات میں ان کی پھر سے کامیابی ہر اعتبار سے جائز اور قانونی ہے۔

https://p.dw.com/p/1AltM
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کا اصرار ہے کہ اُن کی انتخابی کامیابی ہر اعتبار سے جائز اور قانونی ہے لیکن یہ کہ وہ پھر بھی نئے انتخابات پر راضی ہو سکتی ہیں
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کا اصرار ہے کہ اُن کی انتخابی کامیابی ہر اعتبار سے جائز اور قانونی ہے لیکن یہ کہ وہ پھر بھی نئے انتخابات پر راضی ہو سکتی ہیںتصویر: DW

بنگلہ دیش میں اپوزیشن نے اپنی اڑتالیس گھنٹے کی ہڑتال میں بدھ تک کے لیے توسیع کرتے ہوئے حکومت پر دباؤ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ آج پیر کے روز مزید سات افراد ہلاک ہو گئے۔ اس طرح انتخابات کے ایک روز بعد بھی بنگلہ دیش کا سیاسی بحران تھمتا نظر نہیں آ رہا اور ملک کی بائیس بلین ڈالر کا کاروباری حجم رکھنے والی اُس ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے خطرات اور بڑھتے نظر آتے ہیں، جس کا ملکی برآمدات میں حصہ اَسّی فیصد بنتا ہے۔

آج وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے دارالحکومت ڈھاکہ میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر غیر ملکی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جہاں اپنی دوبارہ انتخابی کامیابی کو جائز اور قانونی قرار دیا، وہیں یہ بھی کہا کہ وہ اپنی حریف جماعتوں کے ساتھ بات چیت تب کریں گی، جب وہ اپنی بقول اُن کے ’دہشت گردانہ کارروائیاں‘ روک دیں گی۔ چونسٹھ سالہ حسینہ نے کہا کہ ’بی این پی بات چیت کرنے آئے تو انتخابات کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں لیکن پہلے اُنہیں تشدد کی راہ ترک کرنا ہو گی‘۔

انتخابات کے ایک روز بعد بھی ملک میں فضا خاصی کشیدہ ہے اور یہ سیاسی بحران جلد کسی انجام کو پہنچتا دکھائی نہیں دیتا
انتخابات کے ایک روز بعد بھی ملک میں فضا خاصی کشیدہ ہے اور یہ سیاسی بحران جلد کسی انجام کو پہنچتا دکھائی نہیں دیتاتصویر: Reuters

شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ اگر اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے تو ’اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ انتخابات کا جائز اور قانونی ہونا مشکوک ہو گیا ہے‘۔ اتوار کے انتخابات میں اپنی جماعت عوامی لیگ کی ملک گیر کامیابی کے بعد پہلی مرتبہ اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’اِن انتخابات میں لوگوں نے بھی شرکت اور دیگر جماعتوں نے بھی‘۔

تین سو پچاس رکنی پارلیمان میں سے تین سو نشستوں پر مقابلہ ہونا تھا تاہم اِن تین سو میں سے نصف سے زیادہ نشستوں پر عوامی لیگ کے مد مقابل کوئی اور امیدوار ہی نہیں تھا اور اسی لیے عوامی لیگ دو تہائی سے بھی زیادہ نشستوں پر کامیاب ٹھہری ہے۔

اپوزیشن جماعت BNP نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ اپنے ان مطالبات کے رَد کیے جانے کے بعد کیا تھا کہ انتخابات سے پہلے وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے اور انتخابات کسی غیر جانبدار عبوری حکومت کی نگرانی میں کروائے جانے چاہییں۔ اس سلسلے میں آج شیخ حسینہ واجد نے یہ کہا کہ اُنہوں نے انتخابات سے پہلے بی این پی کی لیڈر کو ایک وسیع البنیاد حکومت میں شمولیت کی پیشکش کی تھی۔ اُنہوں نے کہا، ’دیکھیے، مَیں نے بہت کوشش کی، مَیں نے وزارت کی پیشکش کی، مَیں نے اپوزیشن کو شرکتِ اقتدار کی پیشکش کی، جو بھی ہو سکتا تھا، وہ مَیں نے کیا لیکن اُنہوں نے کوئی جواب ہی نہیں دیا‘۔

شیخ حسینہ نے مزید کہا کہ ’اگر اب اُنہیں اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اُنہوں نے انتخابات میں شرکت نہ کر کے غلطی کی ہے تو شاید اب اُنہیں آگے آنا چاہیے اور ہمارے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے یا پھر خود کوئی پیشکش کرنی چاہیے۔ تاہم بات چیت سے پہلے اُنہیں یہ تمام دہشت پسندانہ کارروائیاں چھوڑنا ہوں گی۔ وہ تو سیدھے سیدھے لوگوں کو، پولیس کو اور بے گناہ عوام کو ہلاک کر رہے ہیں‘۔

گزشتہ بائیس برسوں میں دو برسوں کو چھوڑ کر باقی تمام عرصے میں یہی دونوں بیگمات ہی اقتدار میں رہی ہیں
گزشتہ بائیس برسوں میں دو برسوں کو چھوڑ کر باقی تمام عرصے میں یہی دونوں بیگمات ہی اقتدار میں رہی ہیںتصویر: Getty Images/AFP/FARJANA K. GODHULY

شیخ حسینہ کی یہ پیشکش ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے، جب بی این پی کے بہت سے رہنما یا تو جیل میں ہیں یا پھر چُھپتے پھر رہے ہیں اور اُن کی اڑسٹھ سالہ قائد بیگم خالدہ ضیاء عملاً اپنے گھر پر نظر بند ہیں۔ گزشتہ بائیس برسوں میں دو برسوں کو چھوڑ کر باقی تمام عرصے میں یہی دونوں بیگمات ہی اقتدار میں رہی ہیں۔

اتوار پانچ جنوری کو منعقدہ انتخابات 160 ملین کی آبادی والے بنگلہ دیش کی تاریخ کے خونریز ترین انتخابات تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس دوران مختلف پُر تشدد واقعات میں کم از کم چھبیس افراد ہلاک ہو گئے جبکہ سینکڑوں پولنگ اسٹیشنوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔

یورپی یونین، امریکا اور دولت مشترکہ نے ان انتخابات کو محض نمائشی قرار دیتے ہوئے اپنے مبصرین بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ ابھی تک سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ انتخابات میں ووٹروں کی شرکت کا تناسب کیا رہا تاہم ایک مبصر گروپ نے یہ شرح تیس فیصد بتائی ہے۔ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں یہ شرح 83 فیصد رہی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید