اپنے ہم وطن متاثرین کی مدد کے لئے سرگرم پاکستانی
24 اگست 2010اتوار کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ اب تک 816 ملین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے یا وہ مل چکی ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اِس میں سے مجموعی طور پر کتنی رقم پاکستانی حکومت کو ادا بھی کی جا چکی ہے۔
ایک بات طے ہے کہ پاکستان کے اندر اکٹھے کئے جانے والے عطیات نہ ہوتے، تو سیلاب سے متاثرہ افراد کی شاید اتنے مؤثر اور بھرپور انداز میں مدد نہیں کی جا سکتی تھی۔ اسلام آباد سے زابینا ماتھے لکھتی ہیں کہ سیلاب کا موضوع پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں بدستور سرِفہرست ہے لیکن اب ساتھ ساتھ میڈیا سیلاب زدگان کے لئے عطیات بھی جمع کر رہا ہے۔ مختلف ٹی وی چینل اپنے ناظرین کو بتاتے ہیں کہ کیسے سیلاب سے متاثرہ افراد بھوک، بیماریوں اور خوف کا شکار ہیں اور کیسے اُن کی طرف سے فراہم کی جانے والی رقوم شفاف طریقے سے متاثرین کی مدد کے لئے خرچ کی جائیں گی۔
خود پاکستانی حکومت نے بھی متاثرین کی امداد کے لئے ایک فنڈ قائم کیا تھا لیکن اُس کے جواب میں عوام کی جانب سے کوئی زیادہ متاثر کن ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اُس کی وجہ یہی ہے کہ عوام نہ تو سیاسی محکموں پر اعتماد کرتے ہیں، جنہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ سانحہ اُن کی استعداد سے بڑھ کر ہے اور نہ ہی وہ سیاستدانوں پر اعتبار کرتے ہیں، جن کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ اپنی ہی جیب گرم کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔
سیاستدانوں کے بارے میں پائی جانے والی اِس عمومی منفی سوچ کے باوجود سابق کرکٹر عمران خان نے، جو آج خود کو ایک ایماندار اور باکردار سیاستدان کے طور پر پیش کرتے ہیں، سیلاب زدگان کی مدد کے لئے ایک فنڈ قائم کیا ہے۔ ایک زمانے میں پلے بوائے کا امیج رکھنے والے عمران خان اپنے ہم وطنوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:’’آئیے، ہم مل کر اِس المیے پر قابو پانے کی کوشش کریں۔‘‘سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان بھی یہ بات بے لوث ہو کر نہیں کرتے۔ اُن کی سیاسی جماعت تحریکِ انصاف سیاسی منظر پر کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ عطیات جمع کر کے عمران خان ایک بار پھر خود کو نمایاں کر سکتے ہیں۔
مشہور شخصیات سے ہَٹ کر عام پاکستانی شہری بھی، جن میں طالبعلم، ڈاکٹر، سرکاری ملازمین سبھی شامل ہیں، سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کوشاں ہیں۔ پاکستان بھر میں پاکستانی امدادی تنظیموں، نجی فلاحی انجمنوں یا پھر سرکاری اداروں کے سٹال لگے ہیں، جہاں عطیات جمع کروائے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پولیس کا بھی ایک سٹال لگا ہوا تھا، جہاں لوگوں کی طرف سے فراہم کئے گئے کمبلوں اور پرانے کپڑوں اور جوتوں سے بھرے ہوئے تھیلوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ اِس سٹال پر بیٹھے ہوئے اہلکاروں نے بتایا کہ یہ عطیات زیادہ تر ایسے لوگوں نے دئے ہیں، جو خود بھی اتنے خوشحال نہیں ہیں۔ اِس سٹال پر جو کچھ جمع ہوتا ہے، وہ چار سدہ اور نوشہرہ کے سیلاب زدہ افراد کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔ اِن اہلکاروں نے بتایا کہ ضرورت مندوں کی تعداد کے پیشِ نظر روز ایک ٹرک سیلاب زدگان کے لئے بھیجا جانا چاہئے لیکن یہ کہ تقریباً تین ہفتوں کے دوران وہ اَشیاء سے بھرے ہوئے تین ہی ٹرک متاثرہ علاقوں میں روانہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
بہت سے پاکستانی اپنے مصیبت کے شکار ہم وطنوں کی اِس طرح سے مدد کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے اُنہیں اپنے گھر میں ہی ٹھہرا لیا ہے۔ پنجاب کے ایک بڑے زمیندار محمد ابراہیم نے دو سو لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ حکومت اِن متاثرین کی مدد کرنے میں ناکام رہی ہے: ’’اِن لوگوں کا سب کچھ برباد ہو گیا ہے، اِن کے مکانات گر گئے ہیں، اِن کے پاس سونے کے لئے چارپائیاں تک نہیں ہیں۔ حکام کو اِس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ جب یہ لوگ سیلاب کے بعد گھروں کو لوٹیں تو اِن کے سروں پر چھت تو ہو۔‘‘
بلاشبہ سیلاب کے بعد متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کا زیادہ بڑا چیلنج درپیش ہو گا، جس کے لئے ہنگامی امداد کے مقابلے میں پیسہ بھی زیادہ درکار ہو گا، کوششیں بھی اور صبر بھی۔
رپورٹ: زابینا ماتھے / امجد علی
ادارت: عاطف توقیر