ایران کے خلاف مزید پابندیاں، امریکی ایوان نمائندگان میں ووٹنگ
10 دسمبر 2011امریکی ایوان زیریں کے چند رہنماؤں نے خبر رساں ادارے AFP کو بتایا کہ اقوام متحدہ کی جوہری توانائی ایجنسی کی ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق رپورٹ کے بعد تہران حکومت کے خلاف پابندیاں مزید سخت بنانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ واضح رہے کہ مغربی ممالک کو خدشات ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے۔ دوسری جانب ایران اپنے جوہری پروگرام کو پر امن قرار دیتا ہے۔
جمعے کے روز سامنے آنے والے اس بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس نئے بل کے تحت ایسے ممالک اور اداروں کو سزا دی جا سکے گی، جو ایران میں پیٹرولیم مصنوعات سے منسلک توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ایسے ممالک اور کمپنیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکے گی، جو کسی طرح بھی ایرانی کیمیائی، حیاتیاتی یا جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ روایاتی ہتھیاروں کی تیاری میں مدد فراہم کریں گے۔
اس بل کے ساتھ ہی اگلے ہفتے ایک اور قانونی مسودہ بھی پیش کیا جائے گا، جس کے ذریعے ایسے افراد، ملکوں اور اداروں کو بھی ہدف بنایا جا سکے گا، جو ایران کے علاوہ شام اور شمالی کوریا کے جوہری، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں یا ان کے میزائل پروگراموں کی ترقی میں کسی طرح کی بھی مدد مہیا کریں گے۔
اس بل میں طے کیا گیا ہے کہ امریکہ ایسے فرد، افراد، گروپوں یا کمپنیوں کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے امریکہ کے سفر پر بھی پابندی عائد کر دے گا۔ اس کے علاوہ وہ نہ تو کسی امریکی بینک سے کوئی قرض لے پائیں گے اور نہ ہی کوئی امریکی ادارہ ان کے ساتھ کوئی کاروباری معاہدہ کر پائے گا۔
یہ قانونی مسودے ایک ایسے وقت میں امریکی ایوان نمائندگان میں پیش کیے جا رہے ہیں، جب ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں ہی جماعتوں کے نمائندے ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان رہنماؤں کا خیال ہے کہ ایران تیزی سے اپنا جوہری پروگرام آگے بڑھا رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے تہران حکومت کے خلاف سخت ترین پابندیوں کے نفاذ کی اشد ضرورت ہے۔
صدر باراک اوباما بھی ایران کے خلاف سخت پابندیوں کی حمایت کرتے آئے ہیں، تاہم اُنہوں نے ایرانی مرکزی بینک کو عالمی مالیاتی نظام سے الگ کرنے کے مطالبات تسلیم نہیں کیے۔ اس پر اوباما کو کانگریس کے بعض رہنماؤں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: امجد علی