ایرانی جوہری معاہدے کا مستقبل: اہم فریقوں کی ملاقات
26 مئی 20182015ء میں طے پانے والے جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان فار ایکشن (JCPOA) یا ایرانی جوہری معاہدے سے امریکا کی علیحدگی کے بعد کی صورتحال پر غور کے لیے اس معاہدے کے بقیہ پانچ فریقوں نے پہلی مرتبہ جمعہ 25 مئی کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد اس معاہدے کو بچانے کی راہ تلاش کرنا ہے۔
چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ طے پانے والے اس جوہری معاہدے پر قائم رہیں گے، تاہم امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف ’’تاریخ کی سخت ترین پابندیاں‘‘ عائد کرنے کے اعلان کے بعد ابھی اس بات کا حل تلاش کیا جانا باقی ہے کہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں بین الاقوامی تجارت کو جو نقصان پہنچے گا اُس کے اثرات کو کیسے کم سے کم کیا جائے۔
دوسری طرف ایرانی رہنماؤں کی طرف سے بھی اس بات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ وہ اس معاہدے پر قائم رہیں گے اور سخت جوہری پابندیوں پر عملدرآمد کریں گے مگر صرف اُسی صورت میں جب اس معاہدے کے بقیہ تمام فریق اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ امریکی پابندیوں کے باوجود ایران بقیہ دنیا کے ساتھ تجارت جاری رکھے گا۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس آرغچی کا کہنا ہے، ’’ہمارا اہم ترین تحفظات بینکنگ کے نظام، انشورنس اور نقل و حمل کے حوالے سے ہیں۔‘‘
جعمہ 25 مئی کو ویانا میں ہونے والی ملاقات کی سربراہی یورپی یونین کے سفارتی امور کے محکمے یورپیئن ایکسٹرنل ایکشن سروس (EEAS) کی سیکرٹری جنرل ہیلگا شمڈ نے کی۔
یورپی طاقتوں نے ویانا میں اس بات پر اتفاق کیا کہ 31 مئی تک ایران کے سامنے ایک منصوبہ رکھا جائے کہ اس معاہدے سے امریکی اخراج کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو کیسے کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس آرغچی کے مطابق تہران یورپی ممالک کے اس منصوبے کے بعد ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا وہ جوہری معاہدے میں شامل رہتا ہے یا نہیں۔
تاہم آرغچی کا یہ بھی کہنا تھا، ’’ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ یورپی ممالک، روس اور چین۔۔۔ یہ سمجھنے میں سنجیدہ ہیں کہ JCPOA کو بچانے کا راستہ صرف یہی ہے کہ ایران کے مفادات کا احترام کیا جائے۔‘‘
یورپی یونین پہلے ہی یورپی کاروباری اداروں کو امریکی پابندیوں کے سبب پہنچنے والے نقصانات سے بچانے کے لیے قانونی طریقہ کار اختیار کرنے پر عمل شروع کر چکا ہے۔ یہ بلاک اس وقت ان خطوط پر کام کر رہا ہے کہ یورپی کمپنیوں کو امریکی پابندیوں سے بچانے کے لیے حکومتوں سے کہا جائے کہ وہ ایران کے مرکزی بینک کے ساتھ رقوم کا لین دین کریں۔
اس ملاقات سے قبل ایران کی طرف سے کہا گیا تھا کہ جوہری معاہدہ شدید خطرات کا شکار ہے تاہم اس ملاقات کے بعد ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس آرغچی کافی پر امید نظر آئے کہ اس معاہدے کو بچانے کی کوئی راہ نکل آئے گی۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں میٹنگ سے قبل کے مقابلے میں اب زیادہ پر امید ہوں۔‘‘
اس ملاقات میں روس کی نمائندگی کرنے والے میخائل اُلیانوف نے ایرانی جوہری معاہدے سے امریکی اخراج پر اپنے تبصرے میں کہا کہ JCPOA ایک ’’اہم بین الاقوامی اثاثہ‘‘ ہے جو صرف امریکا کی ملکیت نہیں بلکہ ’’پوری بین الاقوامی برادی سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘
ا ب ا / ع س (خبر رساں ادارے)