ایرانی جوہری ڈیل کا مستقبل دوبارہ ٹرمپ کے ہاتھ میں
11 جنوری 2018امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعرات گیارہ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق عالمی برادری اس وقت اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی جوہری ڈیل کو آئندہ بھی اسی طرح تسلیم کرتے رہیں گے جیسا کہ امریکا نے اب تک کیا ہے یا پھر وہ اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے، جیسا کہ وہ کئی بار اشارے بھی دے چکے ہیں۔
ایران کے خلاف ٹرمپ کو ناکامی دیکھنا پڑے گی، خامنہ ای
امریکا ایران کا اوّلین دشمن ہے، ایرانی سپریم لیڈر خامنائی
ٹرمپ اکیلے ایرانی جوہری ڈیل ختم کر سکتے ہیں؟ ردعمل اور جائزہ
ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ موضوع اب ایک بار پھر سرخیوں کا موضوع کیوں بننے لگا ہے اور بے یقیبی کی اس صورت حال کی وجہ سے تہران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدے کے حوالے سے کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے؟
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ امریکی صدر کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ جمعہ بارہ جنوری کو یہ اعلان کر دیں گے کہ ایرانی جوہری معاہدے کا حصہ رہنا واشنگٹن کے مفادات کے منافی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس اکتوبر میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ اسی طرح کی بات کر چکے ہیں۔
ٹرمپ کو ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کا احاطہ کرنے والے 2015ء کے امریکی قانون INARA کے تحت ہر 90 روز بعد ملکی کانگریس کو اپنے موقف سے آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اس معاہدے کے درست ہونے کو تسلیم کرتے ہیں یا اس سے انکاری ہیں۔
اس طرح اگر ٹرمپ یہ کہیں کہ وہ نہیں سمجھتے کہ واشنگٹن کو ایران کے ساتھ اس معاہدے کا آئندہ بھی احترام کرتے رہنا چاہیے، تو امریکی کانگریس یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ تہران کے خلاف وہ پابندیاں جزوی طور پر دوبارہ عائد کر دی جائیں، جو اس معاہدے کے بعد سے غیر مؤثر ہیں۔
بات یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد امریکا نے ایران کے خلاف اس کے جوہری پروگرام کی وجہ سے عائد پابندیاں کانگریس کی سطح پر کبھی ختم کی ہی نہیں تھیں۔ پہلے صدر اوباما اور ان کے بعد ٹرمپ اب تک صرف ان پابندیوں پر عمل درآمد کو عبوری طور پر منسوخ کرتے آئے ہیں اور ایسا ہر 90 روز بعد کیا جاتا ہے۔
امریکا نے داخلی معاملے میں مداخلت کی ہے، ایران
’دنیا دیکھ رہی ہے‘، ایران میں مظاہروں پر ٹرمپ کی تنبیہ
اسی لیے اب اگر صدر ٹرمپ نے ان پابندیوں پر عمل درآمد کو عارضی طور پر رکوانے کے لیے دوبارہ کانگریس کو اپنے ایسے کسی فیصلے سے مطلع نہ کیا، تو انہی پابندیوں کی زد میں نئے سرے سے وہ ادارے، بینک اور تاجر بھی آ جائیں گے، جو ایران کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مرتبہ بہت تنقیدی لہجے میں واضح کر چکے ہیں کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کوئی ایسی دستاویز نہیں جو ہر قسم کی خامیوں سے پاک ہو۔ یہ بات انہوں نے اکتوبر میں اس وقت بھی کہی تھی جب انہوں نے کانگریس کو پچھلی مرتبہ نوے روز کے لیے اپنے موقف سے آگاہ کیا تھا۔
جوہری ڈیل امریکی مفاد میں نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی پالیسیوں کے جواب میں ڈیل سے علیحدہ ہو سکتے ہیں، ایران
اب ٹرمپ کے قریب ترین مشیر، جیسے کہ وزیر دفاع جیمز میٹس اور وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ امریکی صدر کو ایک بار پھر کانگریس کو بتانا چاہیے کہ وہ ایران کے خلاف واشنگٹن کی عائد کردہ پابندیوں پر عمل درآمد ایک بار پھر مؤخر کر دے۔ لیکن ذاتی طور پر ٹرمپ کیا فیصلہ کریں گے، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔
دوسری طرف امریکا کے قریب ترین یورپی اتحادی اور اس معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک، مثلاﹰ برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی بالواسطہ طور پر امریکی صدر سے یہ مطالبے کر چکے ہیں کہ وہ آئندہ بھی ایرانی جوہری معاہدے کا احترام کرتے رہیں۔