1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایل این جی کی یورپی مانگ لیکن ایشیائی ممالک میں قلت

12 اکتوبر 2022

یورپ میں ایل این جی کی بڑھتی طلب نے پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ممالک کو مشکل میں ڈال دیا۔ یہ دونوں ممالک اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے ایل این جی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں لیکن اب یہ انہیں دستیاب ہی نہیں۔

https://p.dw.com/p/4I5bB
تصویر: Stefan Sauer/dpa/picture alliance

 روسی انرجی پر انحصار کو کم کرنے کی خاطر یورپ نے ایل این جی کا سہارا لیا ہے تاہم اس طلب میں اضافے کے باوجود توانائی کی اس اہم جنس کی مجموعی پیداوار بڑھی نہیں، جس کا مطلب ہے کہ کچھ ممالک کو ایل این جی ماضی کے مقابلے میں کم ملے گی۔

 یورپی ممالک ماضی کے مقابلے میں رواں سال مائع قدرتی گیس (ایل این جی) زیادہ خرید رہے ہیں۔ یوکرین میں روسی جارحیت کی وجہ سے روس سے یورپ آنے والی انرجی مصنوعات میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یورپی ممالک توانائی کے متبادل طریقوں کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ ایل این جی اس کی ایک بڑی مثال ہے۔

یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے، روسی انرجی پر انحصار کم کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے تحت یورپی ممالک مشترکہ اور انفرادی سطح پر منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں۔

2021 کے مقابلے میں رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران فرانس میں ایل این جی کی مانگ 88  فیصد، نیدرلینڈز میں 109 فیصد جبکہ بیلجیم میں 157 فیصد بڑھی ہے۔

تاہم یورپ میں ایل این جی کی طلب میں اضافے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بالخصوص ایشیائی ممالک میں اس کی رسد کم ہو گئی ہے۔ پاکستان سمیت متعدد ایشیائی ممالک توانائی کی اس قسم کو بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

یورپ میں ایل این جی کی مانگ بڑھی تو عالمی منڈی میں اس کی قیمتیں بھی زیادہ ہو گئیں۔ دوسری طرف اس جنس کی پیداوار میں اضافہ بھی نہیں ہوا ہے۔ یوں غریب ممالک اس سستی انرجی کو خریدنے کی سکت کھو رہے ہیں۔

گیس کی کمی کا خوف، الیکٹرک ہیٹرز کی فروخت بڑھ گئی

پاکستان کو پائپ لائن کے ذریعہ گیس کی فراہمی ممکن، پوٹن

بنگلہ دیش کا المیہ

گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش میں تاریخ کا ایک بدترین 'بلیک آؤٹ‘ دیکھا گیا۔ سو ملین سے زائد افراد کئی گھنٹوں تک بجلی اور پانی کے بغیر رہے۔ بنگلہ دیش کی کئی ماہ سے کوشش ہے کہ ملکی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر عالمی منڈی سے گیس خرید سکے۔

بنگلہ دیشی ٹرانس جینڈر اینکر سماجی تبدیلی کے لیے پرامید

بی آر اے سی یونیورسٹی سے وابستہ محمد تمیم کا کہنا ہے کہ بنگہ دیش میں 'بلیک آؤٹ‘  کے ایسے واقعات بے شک انرجی شارٹیج سے جڑے ہیں لیکن زیادہ بڑا مسئلہ نیشنل الیکٹرسٹی گرڈ کو اپ گریڈ نہ کرنا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش سمیت پاکستان، بھارت اور سری لنکا ایل این جی کی قیمتوں میں اضافے سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

تمیم کے بقول یورپ ایک امیر براعظم ہے اور اس نے بالخصوص رواں سال کے دوران منہ مانگی قیمتوں پر ایل این جی خریدی، ''بے شک یورپی ممالک کی قوت خرید ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، اس لیے اس بحران میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان میں توانائی کا بحران اور نئے مسائل

پاکستان کو بھی اس وقت توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ حکومت پاکستان نے رواں ماہ ہی کوشش کی کہ کوئی سپلائر پاکستان کو ایل این جی فراہم کرے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

پاکستان کی کوشش تھی کہ آئندہ چار تا چھ ماہ کے دوران اسے ہر ماہ صرف ایک کارگو کنٹینر ایل این جی مل سکے لیکن کسی سپلائر نے حکومتی ٹینڈر بھرنے کی کوشش ہی نہ کی۔

بلوچستان میں توانائی کے متبادل ذرائع  کی قلت

پاکستان میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر

گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان کو ایل این جی خریدنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان نے جن انرجی کمپنیوں سے معاہدے کر رکھے ہیں، ان میں سے زیادہ تر اپنے طور پر ایل این جی پیدا ہی نہیں کرتی ہیں۔

ایل این جی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یہ کمپنیاں ایل این جی کو مہنگے داموں پر بیچنے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ غریب ممالک کی حکومتیں ان قیمتوں کو ادا کرنے استطاعت ہی نہیں رکھتیں۔

تو اس کا حل کا کیا ہے؟

حکومت پاکستان کے پاس اگر انرجی مصنوعات کی قوت خرید نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ لوڈشیڈنگ بھی زیادہ ہو گی۔

اسلام آباد حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس فیول کی کمی نہیں ہے تاہم وہ کوشش میں ہے کہ عوام اور کمپنیاں فیول کی بچت کریں، جس کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔

عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے لیے 1.1 بلین ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج منظور کر لیا ہے۔ یوں حکومت کو بچتی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ اس مالیاتی ادارے کی شرائط کو پورا کیا جا سکے۔

یہ امر اہم ہے کہ انرجی مصنوعات کی قلت کی وجہ سے اقتصادی لحاظ سے بنگلہ دیش پاکستان سے زیادہ متاثر ہو گا۔ اس کی وجہ بنگہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری ہے، جو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔

آرتھر سلیوان (ع ب ر ب)

پاکستان کو گیس کی فراہمی ممکن، صدر پوٹن

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں