بلوچستان میں توانائی کے متبادل ذرائع کی قلت
20 اگست 2020پاکستان میں عموماﹰ بارش رحمت سے زیادہ زحمت بن جاتی ہے۔ بلوچستان میں دو ہفتے قبل بارشوں کی وجہ سےکئی اضلاع کو گیس کی ترسیل کئی دنوں تک معطل رہی۔ کوئٹہ کے مضافاتی علاقے نواں کلی کی رہائشی خاتون شازیہ علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے میں گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کے علاقے کے لوگوں کو شدید مسائل کا سامنا رہا کیونکہ روزانہ پانچ سے چھ گھنٹے دورانیے کی لوڈشیڈنگ بھی کی جا رہی ہے جو عموماﹰ صبح کے اوقات میں کی جاتی ہے۔ لہٰذا گیس و بجلی کی عدم موجودگی میں ایک ہفتے تک لکڑیوں پر کھانا پکانا پڑا، ''موجودہ دور میں لائف سٹائل اور گھروں کی تعمیرات اس طرح تبدیل ہو چکی ہیں کہ کوئلے کے سٹوو یا لکڑیوں پر پکانا ایک انتہائی دشوار گزار عمل ہے۔ اس ایک ہفتے میں یہ شدید احساس ہوا کہ توانائی کے ذرائع جیسے گیس، بجلی وغیرہ نے ہماری زندگیوں کو کس طرح آرام دہ بنایا ہوا ہے مگر حکومت بڑھتی ہوئی آبادی اور طلب کے ساتھ ان کے متبادل تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔‘‘
کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو ) کے سابق پبلک ریلیشن آفیسر جبریل خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کوئٹہ میں بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کی ایک بڑی وجہ کوئٹہ کی آبادی میں تیزی سے اضافہ بھی ہے، ''طلب میں جس شرح سے اضافہ ہو رہا ہے پیداوار اتنی نہیں اور نہ ہی اسے بڑھانے کی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘
اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے کیسکو کا موقف جاننے کے لیے اس ادارے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، جو کامیاب نہ ہو سکی۔
گھریلو استعمال کے لیے جنگلات کی کٹائی
زیارت کے رہائشی کلیم اللہ، جو یونیور سٹی آف گجرات میں لیکچرر ہیں، کا کہنا ہے کہ اگرچہ بلوچستان تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے مگر یہاں کے مقامی افراد ان سے کوئی بھی فائدہ حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،''یہاں تک کے بلوچستان کے بہت سے اضلاع جن میں زیارت سر فہرست ہے وہاں ابھی تک گیس پائپ لائن بچھائی ہی نہیں گئی۔ مقامی افراد روز مرہ کی ضروریات اور موسم سرما میں چار سے پانچ ماہ لکڑیاں جلاتے ہیں۔ یوں یہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور ان کی وجہ سے بلوچستان کے صدیوں پرانے ایکو سسٹم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوئی ہیں۔‘‘
بڑے منصوبوں کی ضرورت نہیں
دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کی بدولت ہوا، پانی اور سورج کی روشنی کو متبادل توانائی کے ذرائع کے طور پر اپنایا جا ر ہا ہے کیونکہ یہ نا صرف ماحول دوست ہیں بلکہ یہ قدرت کی طرف سے مفت، ہر وقت اور ہر جگہ دستیاب ہیں۔ ماہرین کاخیال ہے کہ اگر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ان کے جغرافیائی محل ِ وقوع کے مطابق سولر، ونڈ یا تھرمل پاور پراجیکٹس شروع کیے جائیں تو کوئی شک نہیں کہ ہر علا قے کے لوگ اپنے طور پر بجلی تیار کر سکیں اور حکومت کو بڑے منصوبوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
شمسی توانائی ایک سستا متبادل
موجودہ دور میں شمسی توانائی بجلی حاصل کرنے کا ایک سستا ترین ذریعہ ہے۔ 2017 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق صوبے میں ایک مربع میٹر سولر پینل سے تقریباﹰ 5.9 سے 6.2 کلو واٹ فی گھنٹہ توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ صوبے میں سالانہ سورج کی روشنی یومیہ تقریباﹰ 8 سے 8.5 گھنٹے دستیاب رہتی ہے، جس سے 19 یا 20 ملین جول فی مربع میٹر توانائی حاصل کی جا سکتی ہے، جو دنیا بھر میں کسی مخصوص علاقے میں شمسی توانائی کی پیداوار کی بلند ترین سطح مانی جاتی ہے۔ اس کی معیاری اوسط شرح 23 ملین جول فی مربع میٹر ہے یعنی ایک سال کے 80 فیصد دنوں میں دستیاب سورج کی بھرپور روشنی سے بجلی تیار کی جا سکتی ہے اور اس مقصد کے لیے سولر تھرمل ڈیوائس کو آئیڈیل تصور کیا جاتا ہے۔
مختلف منصوبے
چند روز قبل موجودہ وزیر اعلی جام کمال نے'روشن بلوچستان‘ کے نام سے چھوٹے پاور پلانٹس کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ سید فضلِ حیدر بلوچستان میں توانائی کے متبادل ذرائع پر کافی عرصے سے تحقیق کرتے رہے ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کافی عرصہ پہلے صوبے میں توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش کے لیے بورڈ تشکیل دیا گیا تھا، جس کے تحت''ویلیج الیکٹری فیکیشن‘‘پروگرام بھی شروع کیا گیا تاکہ دیہی علاقوں کو سولر سیلز کے ذریعے محدود پیمانے پر بجلی فراہم کی جا سکے مگر فنڈز کی کمی اور حکومتی عدم دلچسپی کے باعث یہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔‘‘
اسی طرح بلوچستان کی ساحلی پٹی ''ونڈ انرجی‘‘کے لیے آئیڈیل ہے، جہاں ہوا کی رفتار تین میٹر فی سیکنڈ سے زیادہ ہے۔ اس توانائی سے براہ راست بجلی تیار کرنے کے علاوہ اس سے واٹر پمپنگ سسٹم کو بھی چلایا جا سکتا ہے، جس سے بجلی کی کافی بچت ہو گی۔