1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

این جی اوز کی فنڈنگ: سپریم کورٹ نے تفصیلات طلب کر لیں

شکور رحیم، اسلام آباد3 جولائی 2015

پاکستانی سپریم کورٹ نے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں سے مبینہ غیر قانونی اور مشکوک سرگرمیوں میں ملوث اداروں سمیت تمام غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو ملنے والے مالی وسائل اور ان کے استعمال کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FsJA
تصویر: picture-alliance/dpa

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعہ تین جولائی کے روز ’باران‘ نامی ایک غیر حکومتی تنظیم کے ایک عہدیدار کی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران حکومت سے ان NGOs کی فنڈنگ سے متعلق تفصیلات طلب کیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ آیا این جی اوز کے لیے غیر ملکی فنڈنگ ہوتی ہے؟ اور اگر ہوتی ہے تو اس کے ذرائع کیا ہیں اور یہ کہاں استعمال کی جاتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کا آغاز ہوئے چھ ماہ ہوگئے ہیں۔ لیکن اب تک این جی اوز کے حوالے سے کیا کارروائی کی گئی ہے؟ انہوں نے کہا کہ در حقیقت نیشنل ایکشن پلان ایک ’نیشنل اِن ایکشن پلان‘ بن گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’اگر حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کر سکتی تو کہہ دے کہ یہ کاغذی کارروائی ہے۔‘‘

جسٹس جواد ایس خواجہ کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کو اردو زبان کی بجائے انگریزی میں شائع کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی ہے۔

بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کی فنڈنگ روکی جانا تھی، اس کا کیا ہوا؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے لیے بجٹ میں سولہ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو اپنی مالیت میں کچھ بھی نہیں ہیں۔

بینچ کے تیسرے رکن جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ سولہ کروڑ روپے بھی نیکٹا اور نیشنل کرائسز منیجمنٹ دونوں کے لیے ہیں، جو کہ وزیر اعظم ہاؤس کے سالانہ اخراجات کے برابر ہیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا صوبائی حکومت نے درست کام نہ کرنے پر کسی این جی او کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مشکوک این جی اوز کا ’فورینزک آڈٹ‘ ہوگا۔ انہوں نے کہا، ’’حکومت این جی اوز کی باقاعدہ مانیٹرنگ کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے۔‘‘

Pakistan schließt NGO Save the Children in Islamabad
پاکستان میں ’سیو دا چلڈرن‘ پر ریاست کے خلاف سرگرمیوں کا الزام لگا کر پہلے پابندی لگائی گئی اور پھر یہ پابندی ختم کر دی گئیتصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal

جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل سے یہ استفسار بھی کیا کہ کیا ’داعش‘ کا نام کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس بارے میں وزارت داخلہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کریں گے۔ جسٹس خواجہ نے کہا کہ اگر کوئی داعش کو پچاس کروڑ کا ’عطیہ‘ دے تو حکومت کے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ وہ اس کی تصدیق کر سکے۔ بعد ازاں عدالت نے اس مقدمے کی مزید سماعت بائیس جنوری تک کے لیے ملتوی کر دی۔

عدالت عظمٰی کی طرف سے این جی اوز کی فنڈنگ اور اس کے استعمال سے متعلق تفصیلات ایک ایسے موقع پر طلب کی گئی ہیں جب حکومت نے ’سیو دا چلڈرن‘ نامی ایک بین الاقوامی این جی او پر ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر پہلے پابندی عائد کی اور پھر یہ پابندی اٹھا لی گئی تھی۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو سکیورٹی سے متعلق حساس علاقوں میں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے اور ان علاقوں میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔

تب وزیر داخلہ نے کہا تھا، ’’پاکستان میں کام کرنے والی ہزاروں غیر سرکاری تنظیموں میں سے 38 سے 40 فیصد تک تنظیمیں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ہزاروں این جی اوز کا کوئی ڈیٹا بینک بھی نہیں ہے۔ ان کی کوئی جانچ پڑتال یا احتساب نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ حکومت پچھلے ایک سال سے اس پر کام کر رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید