ایک سال میں نو لاکھ سے زائد پاکستانی پردیسی ہو گئے
6 مئی 2016اپنے پیاروں سے دور یہ محنت کش پاکستانی دن رات ایک کر کے انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور پاکستان کی معیشت کو چلانے کے لئے زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ بھیج رہے ہیں۔ مالیاتی سال برائے 2014-2015 کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 18.4بلین ڈالرز پاکستان بھیجے۔ زرمبادلہ کا سب بڑا حصہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے بھیجا، جو 5.6 بلین ڈالرز سے زیادہ تھا۔
جرمنی نے 2016ء میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
لیکن ایسا لگتا ہے کہ خون پسینے سے کمانے والے ان پاکستانیوں کا کوئی پر سانِ حال نہیں ہے۔ نیشنل ٹرید یونین فیڈریشن پاکستان کے رہنما ناصر منصور نے ان مزدوروں کی حالتِ زار کے بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے حال ہی میں قطر کا دورہ کیا ہے۔ ایک ایک کمرے میں 10 سے 12 پاکستانی مزدور رہے ہیں۔ وہ ان کمروں میں شفٹوں میں رہتے ہیں۔ اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو ایک عذاب کھڑا ہوجا تا کیوں کہ جراثیم دوسرے لوگوں کو بھی لگ سکتے ہیں۔ ان مزدوروں کے پاس نہ کوئی صحت کی سہولت ہے اور نہ کوئی سوشل سیکیورٹی۔‘‘
ناصر منصور کا مزید کہنا تھا، ’’غیر ہنر مند مزدور، جس میں ایک بڑی تعداد پختونوں کی ہے، تیس سے چالیس ہزارکما رہے ہیں جب کہ ڈرائیور کی تنخواہ اسی سے نوے ہزار پاکستانی روپیہ ہے۔ پاکستان میں اِن کو اِتنے پیسے کون دے گا؟ اِس لئے بے چارے وہاں کام کرتے ہیں۔‘‘
سینٹ کے پینل کو بتایا گیا تھا کہ خیبر پختونخواہ پاکستان کی آبادی کا بارہ فیصد ہے لیکن بیرون ملک مزدورں میں ان کی شرح 26 فیصد ہے۔ عوا می نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ صوبے میں روزگار کے وسائل محددو ہیں اس لئے پختون مزدوروں کو دوسرے ممالک جانا پڑتا ہے۔
افراسیاب خٹک کا کہنا تھا، ’’ہمارے صوبے کے ہر ضلع سے لوگ محنت مزدوری کے لئے باہرگئے ہوئے ہیں۔ چند ایک اضلاع، جہاں زراعت زیادہ ہے، وہاں سے باہر جانے والوں کی تعداد کم ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں سرحد کے دونوں اطراف پختون جنگوں سے بہت متاثر ہوئے ہیں، جس سے ان کی معیشت اور معاشرت بری طرح تباہ ہوئی ہے۔ اس صورت حال نے بھی پختونوں کو دوسرے ممالک کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔خلیج میں کام کرنے والے مزدوروں کے لئے کفیل کا نظام بہت استحصالی ہے۔ مزدور کم و بیش کفیل کے غلام بن کے رہے جاتے ہیں۔ حکومت کو اس مسئلے کا بہت سنجیدگی سے حل نکالنا چاہیئے۔‘‘
بلوچوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین چھوڑ کر نہیں جاتے، لیکن اس صوبے سے بھی مزدوروں کی ایک بڑی تعداد دیارِ غیر میں ہے۔
سینیٹر حاصل بزنجو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مکران ڈویژن میں زراعت نہ ہونے کے برابر ہے، اس لئے لوگوں کی بڑی تعداد یہاں سے خلیجی ممالک گئی ہے۔ ہمارے لوگ زیادہ تر مسقط، بحرین، دوبئی اورسعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔ مسقط کی فوج میں تو ایک وقت میں چالیس فیصد کے قریب بلوچ تھے۔ مسقط کی فوج میں بلوچ میجر کے عہدے تک جا سکتے تھے جب کہ اعلیٰ عہدے مقامی لوگوں کے لئے مختص تھے۔ کیوں کہ زیادہ تر بلوچ سنی ہیں، اس لئے اب بحرین بھی انہیں بلارہا ہے اور کئی لوگوں کو شہریت بھی دے رہا ہے۔‘‘
شمالی اور وسطی پنجاب سے بہت سارے لوگ یورپ، امریکا اور مشرق وسطیٰ میں ہیں۔ جب کہ جنوبی پنجاب سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کر رہی ہے۔
حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے پروفیسر صلاح الدین کا کہنا ہے کا زیادہ تر چھوٹے کسان، جن کی تین یا چار ایکٹرز زمین ہوتی ہے، باہر جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ’’باہر جانے کے لئے پیسہ درکار ہوتا ہے، جو بے زمین کسان کے پاس تو نہیں ہے۔ پنجاب سے چھوٹے کسانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی زمین بیچ کر بیرون ملک جاتی ہے۔ باہر جانے کا یہ رجحان بھٹو صاحب کے دور میں شروع ہوا تھا، جب مشرقِ وسطیٰ میں افرادی قوت کی بہت ضرورت تھی۔‘‘
اکنامک افیئرز ڈویژن کے سابق سیکریٹری سلیم سیٹھی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کسی بھی ملک میں Foreign Reserves کے تین ذرائع ہوتے ہیں، برآمدات سے آنے ولا پیسہ اور سرمایہ کاری کی مد میں لگایا جانے والا پیسہ۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں remittances بھی اس کا ایک بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کے بغیر معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔‘‘