اے آر وائی کے خلاف کارروائی کی ذمہ دار حکومت ہے، سلمان اقبال
11 اگست 2022سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف ڈاکٹر شہباز گل کی جانب سے فوج مخالف بیان کو فوج میں بغاوت کی سازش سے تعبیر کی جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان میڈیا ریکولیٹر اتھارٹی (پیمرا) نے بیان نشر کرنے پر بغیر کسی پیشگی نوٹس اے آر وائی نیوز کی نشریات بند کردی ہیں۔ جبکہ چینل کے مالک سلمان اقبال نے پیمرا کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے مسلم لیگ ن کی انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔
کیا عمران ریاض کی گرفتاری کی مذمت کی جانا چاہیے؟
اے آر وائی نیوز چینل کی بندش آزادی صحافت پر حملہ؟
کراچی میں ڈی ڈبلیو سےکے نمائندے رفعت سعید سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اے آر وائی نیوز نیٹ ورک کے صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان اقبال کا کہنا تھا، '' ہمارا ادارہ مکمل طور پر غیر جانبدار ہے جسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے مگر ہم آزادی صحافت کی جنگ عدالتوں میں لڑیں گے۔‘‘
پابندی کی وجہ کیا ہے؟
پابندی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے سلمان اقبال کا کہنا تھا کہ اے آر وائی نیوز پیلٹ فارم فراہم کرتا ہے تاکہ سیاسی شخصیات اپنا نقطہ نظر بیان کرسکیں، ایک خبر بریک کی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ایک میڈیا ونگ کام کررہا ہے، اس خبر پر موقف جاننے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا لیکن بدقسمتی سے ن لیگ کا موقف دستیاب نا ہوسکا۔ ’’ ن لیگ جب بھی اقتدار میں ہو اے آر وائی کا بائیکاٹ ہوتا ہے۔ سابقہ دور میں بھی ہمیں پانچ برس بائیکاٹ کا سامنا رہا، تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے اسی خبر پر اپنی پارٹی کا موقف بیان کیا تو اس میں نیوز چینل کا کیا قصور ہے؟‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''تحریک انصاف کے ترجمان اور عمران خان کےچیف آف اسٹاف نے اے آر وائی پر کوئی بات کہی تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ اگر اس بات پر ہم نے مزید تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہو تو اپنی خطا تسلیم کرتا ہوں لیکن اس موضوع پر مزید کوئی بات نہیں کی گئی۔‘‘
آزادی صحافت کی لڑائی عدالت میں لڑیں گے
پمیرا کی جانب سے اے آر وائی کو جاری آزادی صحافت کے حق کو غلط طور پر استعمال کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر سلمان اقبال نے کہا، ''نواز لیگ کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے۔ سابقہ دور میں بھی ہمارے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔‘‘
سلمان اقبال کے مطابق، ''زیارت میں قائد اعظم ریسیڈنسی پر ہونے والے حملے کے بعد اے آر وائی سے یوم آزادی پر ایک پروگرام کیا گیا تواس وقت بھی ہمارے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا اور بالکل یہی الزامات تھے جو آج ہم پر لگائے گئے ہیں۔ بلکہ اب ہم پر یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ ہم تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ بنیادی طور پر نواز لیگ نے ہمیشہ میڈیا کو کپ کرانے کی کوشش کی ہے، یہ چاہتے ہیں کہ میڈیا صرف وہ بات کریں جو یہ چاہتے ہیں۔ لیکن ہم یہ لڑائی عدالتوں میں لڑیں گے۔‘‘
مقدمہ فوج نے نہیں، حکومت پاکستان نے درج کرایا ہے
فوج سے خوشگوار تعلقات کے حوالے سے سلمان اقبال نے کہا کہ فوج سے اچھے تعلقات تھے اور ہیں، میں نہیں کہ رہا کہ یہ کام فوج نے کرایا ہے، ''مقدمے میں واضح لکھا ہے کہ حکومت پاکستان نے مقدمہ درج کرایا ہے۔ پاکستان میں کس طرح کام ہوتے ہیں میں اس پر بحث نہیں کروں گا۔‘‘
ٹی وی چینلز بندش کے معاملے پر سلمان اقبال کہتے ہیں، ''جو پہلے جیو کی ساتھ ہوا، آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، کل کسی اور کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر سب خاموش رہیں گے تو کیسے کام چلے گا۔ ٹی وی چینلز اور صحافتی تنظیموں میں اتحاد ہونا چاہیے۔
میڈیا کے لیے ''ڈیوائڈ اینڈ رول‘‘ کی پالیسی
ایک سوال کے جواب میں سلمان اقبال نے کہا کہ سیاسی جماعتیں یہ سمجھ چکی ہیں میڈیا کو تقسیم کرکے ہی ان کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ پاکستان کی بہت بڑی حقیقت ہے اور یہ ملک کے مسائل کو سب سے زیادہ جانتے ہیں، میں 22 برس سے ٹی وی چینل چلا رہا ہوں لیکن مجھے آج تک اسٹبلشمنٹ کی طرف سے کسی دباؤ کا سامنا نہیں رہا۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران بھی کسی بات سے روکا نہیں کیا گیا۔ گفتگو ہوتی ہے لیکن کسی نے آج تک ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش نہیں کی گی۔
’’اس وقت ایک کنفیوزن ہے، پمیرا کہتی ہے ہم نے نہیں کیا، حکومت کہتی ہے ہم نے نہیں کیا لیکن مریم نواز کہتی ہیں کہ اے آر وائی کے ساتھ جو ہوا وہ ان کا اپنا کیا دھرا ہے، سیاسی صورت حاصل انتہائی غیر مستحکم ہے، ہر صوبے میں الگ پارٹی کی حکومت ہے، ن لیگ کی حکومت صرف اسلام آباد تک رہ گئی ہے اور یہ سمجھ نہیں آرہا کہ اس ملک کو چلا کون رہا ہے۔‘‘
پابندی کے ذریعے حکومت کچھ حاصل نہیں کرسکتی
انٹرویو کے اختتام پر سلمان اقبال نے اے آر وائی کے خلاف ہونے والی کاروائی پر براہ راست نواز لیگ کی وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس کا کوئی فائدہ حاصل نہیں بلکہ الٹا نقصان ہوگا۔''معاشرہ میں مزید انشتار پھیلے گا۔ میں دو راتوں سے سویا نہیں ہوں۔‘‘