بحیرہء کیسپیین میں آلودگی تشویشناک حد تک زیادہ
12 مئی 2011جمعرات کو تہران سے ملنے والی رپورٹوں میں بحیرہء کیسپیین سے متعلق سمندری ماحولیات کے تحقیقی ادارے کے سربراہ رضا پورغلام کے اس بیان کا ذکر کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بحیرہء کیسپیین کی حالت انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے۔
اس ایرانی ماہر ماحولیات کے بقول بحیرہء کیسپیین، جسے ایک جھیل بھی کہا جا سکتا ہے، دنیا کا چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا سب سے بڑا سمندر ہے لیکن وہاں تیل کی تلاش اور بڑے بڑے آئل ٹینکروں کی آمد و رفت کی وجہ سے ہر سال ماحولیاتی تباہی کا سبب اور ممکنہ طور پر سرطان کی وجہ بننے والے اتنے زیادہ نقصان دہ مادے پانی میں شامل ہو جاتے ہیں، جن کا حجم ایک لاکھ 22 ہزار 350 ٹن بنتا ہے۔
کیسپیین سی ایکولوجیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ نے ایرانی خبر ایجنسی فارس کو بتایا کہ اس سمندر میں ماحولیاتی تباہی کا باعث بننے والے مادوں میں صرف ہائیڈرو کاربنز ہی شامل نہیں بلکہ ان میں اتنی ہی نقصان دہ بھاری دھاتوں کی بڑی مقدار بھی شامل ہوتی ہے۔ رضا پور غلام کے بقول ہر سال بحیرہء کیسپیین کے پانیوں میں شامل ہونے والی جو بھاری دھاتیں اضافی آلودگی کا باعث بنتی ہیں، ان میں کم از کم 304 ٹن کیڈمیم اور 34 ٹن سیسہ بھی شامل ہوتا ہے۔
اس ایرانی اہلکار نے دعویٰ کیا کہ بحیرہء کیسپیین میں ہر سال پھیلنے والی اضافی آلودگی میں سے 95 فیصد کی ذمہ دار اس وسیع تر آبی علاقے کے شمالی اور شمال مغربی ساحلی خطے کی ریاستیں ہیں، جنہوں نے گہرے پانیوں میں تیل کی بڑی بڑی تنصیبات قائم کر رکھی ہیں۔ ایسے ملکوں کو بحیرہء کیسپیین کی حد تک ’انتہائی ماحول دشمن‘ قرار دیتے ہوئے رضا پور غلام نے روس، قزاقستان اور آذربائیجان کے نام لیے۔
ایران کے اس سرکردہ ماہر ماحولیات کے بقول اسلامی جمہوریہ ایران سالانہ بنیادوں پر بحیرہء کیسپیین میں نئی ماحولیاتی آلودگی میں سے صرف پانچ فیصد کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران سے سمندری آلودگی کا سبب بننے والے جو مادے ہر سال بحیرہء کیسپیین کے پانیوں میں شامل ہو جاتے ہیں، ان میں ڈیٹرجنٹس کے علاوہ کھادوں اور جراثیم کش ادویات کی صورت میں بہت نقصان دہ زرعی کوڑا کرکٹ بھی ہوتا ہے۔
بحیرہء کیسپیین میں پائی جانے والی صنعتی آلودگی اور اس سے متعلق ماحولیاتی معاملات ایک ایسا بڑا حل طلب مسئلہ ہیں، جس پر قابو پانے کے لیے اس سمندر کے کنارے آباد ملکوں کے درمیان ابھی تک کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ