’برطانیہ‘ سے علیحدگی کا عمل پُرسکون ہونا چاہیے: میرکل
26 جون 2016ہفتے کے روز یورپی یونین کے چھ بانی اراکین ممالک کے وزرائے خارجہ نے جرمن دارالحکومت برلن میں ملاقات کی، جس کے بعد ان کی طرف سے کہا گیا کہ لندن حکومت کو یورپی یونین سے جلد از جلد الگ ہو جانا چاہیے۔
ان کے موقف کے برعکس جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے برلن سے مغرب کی طرف واقع تاریخی جرمن شہر پوٹسڈام کے مضافات میں ہرمنز ورڈر کے مقام پر اپنی قدامت پسند سیاسی جماعت سی ڈی یو کے سیاستدانوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا، ’’برطانیہ سے مذاکرات کا انداز تجارتی ہونا چاہیے۔ یہ بات چیت ایک خوشگوار فضا میں ہونی چاہیے۔‘‘میرکل کا کہنا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین کا ایک قریبی ساتھی رہے گا اور اس کے ساتھ یورپی اتحاد کا گہرا اقتصادی تعلق رہا ہے۔جرمن چانسلر نے واضح الفاظ میں کہا ہے، ’’یورپی معاہدے کے آرٹیکل نمبر 50 کے تحت لندن حکومت کو یورپی یونین چھوڑنے کے عمل میں کسی جلد بازی سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
فرانس، اٹلی، ہالینڈ، بیلجیم اور لکسمبرگ کے وزرائے خارجہ کی طرف سے برطانیہ کے اخراج کو جلد از جلد عمل میں لانے کے مطالبے کے برعکس جرمن چانسلر کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ اس عمل کو بہت طول نہیں دینا چاہیے لیکن میں اس وقت اس میں جلدی کے لیے کوئی زور نہیں دوں گی۔‘‘
برلن میں یورپی یونین کے چھ بانی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے یورپی کمیشن کے سربراہ نے کہا تھا، ’’اس معاملے میں اپنی مرضی چلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (کیونکہ) جو نکل گیا وہ نکل گیا۔ اب بریگزٹ کے اطلاق کو صاف ستھرے طریقے سے مکمل کرنا ہے کیونکہ شہریوں اور کاروباری دنیا کو اس فیصلے کی قانونی حیثیت معلوم ہونی چاہیے۔‘‘
بانی رکن ممالک کے اجلاس سے پہلے فرانس کے وزیر خارجہ نے بھی یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے عمل کو جلد مکمل کرنے پر زور دیا تھا۔
اُدھر بریگزٹ کے سلسلے میں برطانیہ میں فعال ’Vote Leave ‘ مہم کے چیف ایگزیکٹیو نے اس امر پر زور دیا ہے کہ لندن کی طرف سے لزبن ٹریٹی کے تحت یورپی یونین کو برطانیہ کے اخراج کے بارے میں نوٹیفیکیشن جاری کیے جانے سے پہلے برطانیہ کے ساتھ غیر رسمی بات چیت کی جانی چاہیے۔
واضح رہے کہ لزبن معاہدے کے رو سے یورپی یونین سے علیحدگی کے عمل کے مکمل ہونے کے لیے دو سال کی مدت دی جاتی ہے۔