برلن ميں مسلمانوں کی تابوت کے بجائے کفن ميں تدفين زير غور
26 اگست 2010اب برلن ميں ميں مسلمانوں کو تابوت کے بجائے صرف کفن ميں دفنانے کی اجازت دينے پر غور کيا جارہا ہے۔
اگلے سال کے شروع ميں زيرغور نئے قانون کے نافذ ہونے کے بعد جرمن دارالحکومت برلن کے دو قبرستانوں کے مخصوص حصوں ميں مسلمان اپنے مُردوں کو تابوت ميں رکھنے کے بجائے صرف کفن ميں دفن کر سکيں گے۔ برلن کے ان قبرستانوں میں مسلمانوں کے لئے مخصوص ان حصوں ميں اب بھی مسلمانوں کے دفنانے کا انتظام ہے ليکن ابھی تک يہ پابندی ہے کہ مردے کو صرف تابوت ہی ميں بند کر کے دفن کيا جائے۔
اندازہ ہے کہ سن 2008 ء ميں برلن ميں تقريباً 500 سے 600 کے درميان مسلمانوں کی اموات ہوئيں، جن ميں سے 70 فيصد کی نعشوں کو تدفين کے لئے ان کے آبائی ممالک بھيجا گيا۔ ان ميں ترک مسلمانوں کی تعداد سب سے زيادہ تھی تاہم برلن ميں مقيم ايسے مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جوبرلن ميں رہنے والے اپنے بچوں، پوتے پوتيوں اور نواسے نواسيوں کے نزديک ہی دفن ہونا پسند کرتے ہيں۔
برلن، ہيمبرگ، لوئر سيکسنی اور زارلينڈ جيسے صوبوں کی تقليد کرتے ہوئے اپنے يہاں بھی مسلمانوں کے لئے بھی تابوت ميں تدفين کی شرط کو ختم کردينا چاہتا ہے۔ برلن کی سماجی امورکی سينيٹر کارولا بلوم نے کہا کہ تابوت کی پابندی کا خاتمہ کرتے ہوئے ايک دوسرے کو تسليم کرنے کی سمت ميں بھی ايک قدم اٹھايا گيا ہے۔ انہوں نے کہا،’’جب کوئی نيا ضابطہ رائج ہوتا ہے تو کچھ خوف بھی پيدا ہوتا ہے ليکن دفنانے والی کمپنيوں کو ہيمبرگ کی مثال سامنے رکھنا چاہئيے جہاں پہلے سے ہی مسلمانوں کو تابوت کے بغير دفنايا جارہا ہے۔‘‘
ترک مسلم برادری بھی اس سے مطمئن ہے کہ آئندہ مسلمانوں کو برلن ميں بھی کفن ميں يا تابوت ميں تدفين کے درميان انتخاب کرنے کا موقع حاصل ہوگا۔ برلن کی ترک مسلمانوں کی برادری کے صدر کنعان کولات نے کہا،’’ ميرے خيال ميں رمضان کے مہينے ميں ايک اچھی خبر ہے کہ يہ تجويز منظور کرلی گئی ہے۔ اس سلسلے ميں ہميشہ دوسرے نکات پر بات کی جاتی رہی ہے، مثلاً حفظان صحت وغيرہ ليکن يہ مسائل قابل حل ہيں۔‘‘
بہت سے مسلمان اس لئے بھی اپنے عزيزوں کو اپنے آبائی ممالک ميں دفن کرنا چاہتے ہيں کيونکہ جرمنی کے کئی دوسرے صوبوں کی طرح برلن ميں بھی قبروں کو 20 سال بعد کھود کر برابر کرديا جاتا ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: عاطف بلوچ