برکس اجلاس: چین اور بھارت کی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش
24 اکتوبر 2024بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ نے بدھ کے روز برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر دو طرفہ ملاقات کی اور تصفیہ طلب امور پر بات چیت کی۔
رواں ہفتے کے اوائل میں دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ سرحدوں پر گشت دوبارہ شروع کرنے کے ایک معاہدے کے طے ہو جانے کے بعد یہ ملاقات ہوئی۔ چار برس قبل سرحد پر فوجی تعطل کے سبب دونوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا اور اس تناظر میں نیا معاہدہ اور یہ ملاقات اہمیت کی حامل ہے۔
سن 2020 کے موسم گرما میں بھارت اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہو گئی تھی جس میں بھارت کے بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس تشدد کے بعد شمالی لداخ کے علاقوں میں دونوں ملکوں نے اپنی متنازع سرحد پر دسیوں ہزار فوجی تعینات کر دیے۔
روس کے کازان میں برکس سربراہی اجلاس شروع
باہمی اعتماد اور احترام پر زور
چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد بھارت کے وزیر اعظم مودی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "بھارت اور چین کے تعلقات اپنے ممالک کے لوگوں اور علاقائی و عالمی امن و استحکام کے لیے اہم ہے۔ باہمی اعتماد، باہمی احترام اور باہمی حساسیت دو طرفہ تعلقات کی رہنمائی کرے گی۔"
چین اور بھارت کا متنازعہ سرحد پر گشت کے معاہدے پر اتفاق
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے اس بارے میں صدر شی جن پنگ کے حوالے یہ نشر کیا کہ انہوں نے ملاقات کے دوران کہا کہ "دونوں فریقوں کو رابطے اور تعاون کو مضبوط کرنا چاہیے، اختلافات اور تنازعات کو صحیح طریقے سے سنبھالنا چاہیے اور ایک دوسرے کی ترقی کے خوابوں کو پورا کرنا چاہیے۔"
مودی اور شی جن پنگ نے اس سے قبل نومبر 2022 میں بالی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر مختصر سی ملاقات اور بات کی تھی۔ تاہم کوئی باضابطہ تبادلہ خیال نہیں ہوا تھا۔
کیا بھارت اور چین کے مابین سرد مہری ختم ہو رہی ہے؟
اگست 2023 میں جوہانسبرگ میں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر بھی دونوں نے بات چیت کی تھی تاہم بعد میں بات چیت سے متعلق مختلف بیانات جاری کیے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین میں اختلافات اس قدر شدید تھے کہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں۔
اس کے اگلے ماہ ستمبر میں جب نئی دہلی کی میزبانی میں جی 20 سربراہی اجلاس منعقد ہوا، تو چینی صدر نے اس میں شرکت تک نہیں کی۔ ان کے اس فیصلے کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے لیے ایک اور بڑا دھچکا سمجھا جاتا ہے۔
اس بار برکس کی میزبانی روس کے پاس تھی، جو مغرب ممالک کی بھاری پابندیوں کے بوجھ سے دوچار ہے۔ تاہم روسی صدر پوٹن نے اس سال کے سربراہی اجلاس کو دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کے رہنماؤں کو ایک میز پر لا کر اپنے آپ کو ایک اہم عالمی کھلاڑی کے طور پر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
لداخ کے خانہ بدوش بھارت چین سرحدی کشیدگی سے متاثر
'کثیر قطبی آرڈر' تشکیل پا رہا ہے، پوٹن
صدر پوٹن نے بدھ کے روز کہا کہ "30 سے زائد ممالک نے اس بلاک میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔" گزشتہ برس بھی برکس نے کئی نئے ارکان کا استقبال کیا تھا، جو تمام چھ ممالک اس سال کے اوائل میں باضابطہ طور پر اس بلاک میں شامل ہوئے۔
پوٹن نے بدھ کے روز کازان میں سربراہی اجلاس کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ "ایک کثیر قطبی عالمی نظام کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔ یہ ایک متحرک اور ناقابل واپسی عمل ہے۔"
پوٹن نے رہنماؤں سے اپنے خطاب میں کہا کہ "برکس کے ساتھ روابط کو مضبوط بنانے میں گلوبل ساؤتھ اور مشرقی ممالک کی بے مثال دلچسپی کو نظر انداز کرنا غلط ہو گا۔"
کواڈ سمٹ: موضوع چین کے ساتھ کشیدگی اور بحری سلامتی، بائیڈن
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ گروپ "شدید قسم کے علاقائی تنازعات" پر بھی بات چیت کرے گا، یعنی مشرق وسطیٰ اور یوکرین کے تنازعات پر بھی اس میں گفتگو ہو گی۔
برکس عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار، مودی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ یہ بلاک "دنیا کی 40 فیصد آبادی اور تقریباً 30 فیصد معیشت کی نمائندگی کرتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "برکس نے گزشتہ دو دہائیوں میں بہت سی چیزیں حاصل کی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقتوں میں، یہ تنظیم عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور زیادہ موثر ذریعہ بن کر ابھرے گی۔"
مودی نے یہ بھی کہا کہ وہ گروپ کے ارکان کے درمیان مالیاتی انضمام کو بڑھانے کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "مقامی کرنسی میں تجارت اور سرحد پار سے آسان ادائیگیاں ہمارے اقتصادی تعاون کو مضبوط بنائیں گی۔"س
روس نے خاص طور پر برکس ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے ایک متبادل پلیٹ فارم تیار کریں جو مغربی پابندیوں سے پوری طرح محفوظ ہو۔ واضح رہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد روس کو بین الاقوامی ادائیگی کے نظام 'سوئفٹ' سے نکال دیا گیا تھا۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)