بشار الاسد کا عام معافی کا اعلان
1 جون 2011خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بشار الاسد کی جانب سے عام معافی کا اعلان شام کے سرکاری ٹیلی وژن پر کیاگیا۔ انہوں نے یہ اعلان اپنے گیارہ سالہ دورِ اقتدار کے خلاف دس ہفتوں سے جاری احتجاجی مظاہروں کے بعد کیا۔
اس عرصے میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کا کریک ڈاؤن بھی جاری رہا ہے، جس پر عالمی برادری کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا۔
ٹیلی وژن کے مطابق یہ معافی اخوان المسلمین سمیت سیاسی تحریکوں کے تمام ارکان کے لیے ہے۔ اخوان المسلمین نے 1982ء میں بشار الاسد کے والد کے خلاف مسلح احتجاج کیا تھا اور اس جماعت کے رکن ہونے پر موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
عام معافی کا اعلان اصلاحات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ قبل ازیں اصلاحات کے تحت اڑتالیس سالہ ایمرجنسی ہٹائی گئی جبکہ ملک کے شمالی علاقوں میں آباد کرد باشندوں کو شہریت دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔
تاہم ان اصلاحات کے باوجود مظاہرین کے خلاف پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ وہاں ان مظاہروں میں اب تک ایک ہزار شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دس ہزار سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
دمشق حکومت پرتشدد کارروائیوں کے لیے مسلح گروہوں، اسلام پسندوں اور غیرملکیوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ایسے حالات کے نتیجے میں ایک سو بیس سے زائد سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
روئٹرز نے احتجاج میں شامل کارکنوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ منگل کو بھی رستن کے علاقے میں ٹینکوں کی شیلنگ کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
امریکہ نے بشار الاسد کی جانب سے عام معافی کے اعلان پر ردِ عمل میں کہا ہے کہ انہیں ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر کا کہنا ہے: ’وہ اصلاحات پر بات کر چکے ہیں، لیکن ہمیں عملی طور پر بہت تھوڑا کام ہوتا نظر آیا ہے، جس سے ملک کو درپیش مسائل حل کیے جا سکیں۔‘
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ بشار الاسد کی پوزیشن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کو اقتدار کی منتقلی کے عمل کی قیادت کرنے یا ’راستے سے ہٹنے‘ کے لیے کہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بشار الاسد نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف جاری تشدد کو روکنے پر کوئی بات نہیں کی۔
رپورٹ: ندیم گِل/ر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد