بلوچستان میں بم دھماکے میں پانچ بچوں سمیت سات افراد ہلاک
1 نومبر 2024پاکستانی صوبے بلوچستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ضلع مستونگ میں جمعے کی صبح ہونے والے ایک بم دھماکے میں سات افراد ہلاک اور سترہ زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک اسکول کے پانچ بچے اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
قلات ڈویژن کے ایک سینیئر پولیس افسر نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا، ’’اب تک سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اسکول کے پانچ طالب علم بھی شامل ہیں اور 17 دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔‘‘
حکام کے مطابق یہ بم دھماکہ مستونگ سول ہسپتال کے قریب صبح آٹھ بج کر 35 منٹ پر ہوا۔
پاکستان: پنجگور میں عسکریت پسندوں کے حملے میں پانچ افراد ہلاک
خبر رساں ادارے اے پی نے ایک مقامی پولیس اہلکار فتح محمد کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ اسکول کے بچوں کو لے جانے والا ایک آٹو رکشہ بم دھماکے کی زد میں آ گیا، جس کی وجہ پانچ طالب علم، ایک پولیس افسر اور ایک راہ گیر ہلاک ہو گئے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند نے بتایا، ’’اس حملے کا بنیادی ہدف حفاظتی گشت کرنے والی پولیس کی ایک گاڑی تھی، تاہم اسکول کے بچوں کو لے جانے والا ایک رکشہ اس بم دھماکے کی زد میں آ گیا۔‘‘
بلوچستان میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے مزدوروں کی کمی
اس حملے میں زخمی ہونے والوں کو نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال اور مستونگ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کرا دیا گیا تھا، تاہم بعد میں ان میں سے 11 زخمیوں کو کوئٹہ ٹراما سینٹر (کیو ٹی سی) منتقل کر دیا گیا۔
کیو ٹی سی کے اہلکاروں کے مطابق کوئٹہ منتقل کیے گئے زخمیوں میں ایک پانچ سالہ لڑکی اور ایک نو عمر لڑکا بھی شامل ہیں۔ ان زخمیوں میں سے پانچ کی حالت تشویش ناک بتائی گئی ہے۔
بلوچستان کےپشتون اکثریتی علاقوں میں دہشت گردی کی نئی لہر
بم دھماکے کی مذمت
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی دونوں نے اس بم دھماکے کی مذمت کی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملک سے باغیوں کے خاتمے تک ان کے جنگ جاری رہے گی۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے مستونگ میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے سوشل میڈيا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار اور معصوم بچوں کے لواحقین سے اظہار افسوس کیا۔
بلوچستان میں کان کنوں پر حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک
انہوں نے لکھا، ’’دہشت گردوں نے غریب مزدوروں کے ساتھ اب معصوم بچوں کو بھی نشانہ بنایا ہے اور یہ انسانیت سوز حملہ قابل مذمت ہے ۔ ۔ ۔ معصوم بچوں اور بے گناہ افراد کے خون کا حساب لیں گے، شہری آبادی میں مقامی افراد کو بھی دہشت گردوں پر نظر رکھنا ہو گی کیونکہ مل جل کر ہی دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
پاکستانی فوج کا چھ بلوچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ
بلوچستان میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ
فوری طور پر کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی انہیں بلوچ علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے، جنہوں نے حالیہ مہینوں میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر اپنے ہلاکت خیز حملے تیز کر دیے ہیں۔
تین روز قبل بھی بلوچستان میں ایک ڈیم کی تعمیراتی سائٹ پر مسلح افراد کے ایک حملے میں پانچ نجی محافظ ہلاک ہو گئے تھے اور مقامی لیکن ممنوعہ علیحدگی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
اس طرح کے مسلسل حملے قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں، جہاں عسکریت پسندوں کے حملوں میں کافی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
اس سے قبل اکتوبر کے مہینے میں ہی ایک حملے میں نجی طور پر چلائی جانے والی کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 21 کان کن بھی ہلاک ہو گئے تھے۔
بلوچستان میں ایک طویل عرصے سے شورش جاری ہے، جہاں علیحدگی پسند گروہ بنیادی طور پر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے غیر ملکیوں پر بھی حملے کرتی رہتی ہے۔ گزشتہ ماہ اسی گروپ نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی تھی، جس میں کراچی کے ہوائی اڈے کے باہر چینی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں چین سے تعلق رکھنے والے دو کارکن ہلاک اور آٹھ دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔
چین کے اربوں ڈالر کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نامی منصوبے کے تحت ہزاروں چینی کارکن پاکستان میں زیر تعمیر بنیادی ڈھانچے کے کئی بڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔
ص ز/ م م (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)