بلوچستان میں دہشت گردی کی ہلاکت خیز لہر
13 جولائی 2017بلوچستان حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس مبارک شاہ اور تین دیگر پولیس اہلکاروں کو ان کی گاڑی پر حملہ کر کے قتل کر دیا۔ کاکڑ کے بقول بلوچستان حکومت کے مطابق یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے ایک منحرف دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کر لی ہے۔
ابھی چند روز قبل ہی بلوچستان ہی میں پولیس کے ایک سینیئر سپرنٹنڈنٹ ساجد خان مہمند کو بھی ایک خود کش بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ صوبائی حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ نے بتایا کہ بلوچستان میں حکومت کو مسلح قوم پرستی اور مجرمانہ کارروائیوں کا سامنا بھی ہے لیکن اس وقت ’زیادہ بڑا مسئلہ مذہب کے نام پر عسکریت پسندی‘ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمیں خدشہ ہے کہ چند ہمسایہ ممالک مذہب کے نام پر اس عسکریت پسندی میں اضافہ چاہتے ہیں۔ اس میں زمین افغانستان کی استعمال ہوتی ہے اور فنڈنگ بھارت سے کی جاتی ہے۔‘‘
اسی دوران بلوچستان میں سلامتی کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سینئر صحافی اویس توحید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عام تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ پاکستان کے روایتی حریف ملک بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کا گٹھ جوڑ بلوچستان کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ لیکن مقامی تائید کے بغیر تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایسی کارروائیوں کے لیے مقامی تائید و حمایت پر قابو پائے۔‘‘
پارا چنار، کوئٹہ، کراچی حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 85 ہو گئی
کوئٹہ حملہ لشکر جھنگوی سے الگ ہونے والے ایک گروہ نے کیا
کوئٹہ میں خودکش کار بم حملہ، کم از کم نو افراد ہلاک
اویس توحید نے مزید کہا کہ لشکر جھنگوی العالمی سمیت کئی ممنوعہ دہشت گرد اور شدت پسند تنظیموں نے خود کو داعش کے ساتھ جوڑ لیا ہے اور جن تنظیموں نے ایسا نہیں بھی کیا، ان کے عسکریت پسند بھی یہی سمجھتے ہیں کہ داعش ایک ایسی تنظیم ہے جو ’اسلام کی خاطر مغرب سے جنگ‘ کر رہی ہے۔
گزشتہ ایک عشرے کے دوران بلوچستان میں فرنٹیئر کانسٹیبلری اور پولیس کے سینکڑوں اہلکار درجنوں دہشت گردانہ حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ پاکستان میں سکیورٹی ماہرین کی رائے میں امریکا میں نائن الیون کے حملوں کے بعد پاکستان میں جس طرح ملکی فوج کو انسداد دہشت گردی کی تربیت دی گئی ہے، ویسی تربیت پولیس کو نہیں دی گئی۔ اس لیے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اب تک صوبے میں کئی اعلیٰ پولیس افسران اور سینکڑوں سکیورٹی اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس حوالے سے اویس توحید نے کہا کہ پہلے کافی عرصے تک پولیس کے پاس نہ تو مناسب ہتھیار تھے اور نہ ہی بلٹ پروف جیکٹیں۔ ان کی رائے میں ایسی دہشت گردانہ کارروائیوں پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ملکی فوج، خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار اور پولیس فورس مل کر کام کریں۔ ان کے بقول مقامی پولیس کے پاس بہت زیادہ اطلاعات ہوتی ہیں، جن سے تمام ملکی ادارے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اویس توحید کی رائے میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانا ایک خطر ناک رجحان ہے۔
کوئٹہ ہی سے ایک اور سینئر صحافی عرفان سعید کی رائے میں سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کی کوششوں کے تحت مستقبل میں ایسے مزید حملوں کا خطرہ بھی رہے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’داعش اب ایک بڑا خطرہ بن کر ابھر رہی ہے۔ ماضی قریب میں بلوچستان میں بڑے حملوں کی ذمہ داری داعش قبول کر چکی ہے، جس کو مقامی عسکریت پسند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے۔‘‘