بنارس: ہندوؤں کے لیے موت اور نجات کا شہر
24 اگست 2013ہندوؤں کے نزدیک بنارس ایک متبرک شہر ہے۔ یہاں تقریباﹰ ایک سو سے زائد مندر واقع ہیں۔ سالانہ لاکھوں یاتری یہاں اشنان کے لیے آتے ہیں اور زیادہ تر ہندوؤں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ انہیں اسی شہر میں موت آئے اور یہیں ان کی چِتا کو آگ دی جائے۔
ہڈیوں کا ڈھانچا دکھائی دینے والی 76 سالہ وینا داس کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کی موت اب قریب ہی ہے۔ کمزور اور کانپتے ہوئے جسم کے ساتھ کھانسی کے دورے ان کی حالت کو مزید خراب کر دیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ہر روز اس امید پر اٹھتی ہوں کہ شاید آج موت آ جائے۔ میں کئی برسوں سے اس مرض میں مبتلا ہوں اور اب تنگ آ چکی ہوں۔ میں اس پاک دھرتی پر مرنا چاہتی ہوں۔‘‘
متبرک شہر
وینا داس وہ واحد ہندو نہیں ہیں جو بنارس میں مرنا چاہتی ہیں بلکہ ان جیسی ہزاروں خواتین موت کے انتظار میں اسی شہر میں ڈیرا ڈالے بیٹھی ہیں۔ ایک چھوٹے سے پلنگ پر بیٹھی چھپن سالہ اوما دیوی بھی ان میں سے ایک ہیں۔ اوما دیوی نے یہ تو نہیں بتایا کہ وہ کس بیماری میں مبتلا ہیں تاہم انہوں نے ڈی ڈبلیو کو یہ ضرور بتایا ہے کہ انہوں نے اپنی آخری منزل کے طور پر اسی شہر کو کیوں چنا ہے: ’’اس پاک شہر میں موت کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ مذہب سے لگاؤ رکھنے والے تمام ہندو بنارس میں ہی مرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میں یہ محسوس کر رہی ہوں کی میں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہوں گی۔ مجھے امید ہے کہ میری راکھ گنگا میں بہا دی جائے گی۔‘‘
دریائے گنگا کے قریب واقع ایک شیلٹر میں اوما دیوی کا بیٹا واششت بھی ساتھ ہی بیٹھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے پاس اپنی ماں کی آخری خواہش پوری کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ ’’میری والدہ یہی چاہتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جلد ہی میری ماں کے مصائب ختم ہو جائیں گے۔‘‘
تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے ہندو سات جنموں کے چکر سے نکلنے اور مکتی پانے کے لیے اسی شہر کا رخ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں متعدد ’مکتی ہاؤس‘ کھل چکے ہیں جہاں ایک ہندو اپنے زندگی کے آخری ایام گزار سکتا ہے۔ ان میں سے بعض تو خیراتی اداروں کی طرف سے چلائے جاتے ہیں اور بعض ٹینٹ اور خوراک مہیا کرنے کے چارجز وصول کرتے ہیں۔
یہاں کے ایک مقامی پجاری مہا دیو کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’گنگا میں راکھ بہائے جانے یا پھر بنارس میں وفات پانے کے ذریعے ہندو سینکڑوں برسوں تک جاری رہنے والے زندگی، موت اور دوبارہ جنم کے سلسلے سے مکتی (نجات) پانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
آخری اسٹاپ
دریائے گنگا کے کنارے تنگ گلیوں اور قدیم عمارتوں پر مشتمل اس شہر میں تقریباً 84 گھاٹ ہیں جہاں ہندوستان بھر سے آئے زائرین اشنان (دریائے گنگا میں مقدس ڈبکی)کرتے ہیں۔ مرنے والوں کی آخری رسومات بھی انہی گھاٹوں پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ ایک گھاٹ کے مالک پردیپ چودھری کا کہنا ہے، ’’ہم روزانہ تقریبا 250 لاشوں کو جلاتے ہیں۔ یہاں بہت سے غریب افراد بھی آتے ہیں جو اپنے کسی عزیز کی آخری رسومات کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ لاش کو جلانے کے لیے لکڑی بھی افورڈ نہیں کرسکتے، اسی وجہ سے دریا میں جزوی طور پر جلی لاشیں تیرتی رہتی ہیں۔‘‘
ماحولیاتی تشویش
بھارت میں ماحول دوست تنظیمیں ایک عرصے سے کوشش میں ہیں کہ مذہبی رسومات دریائے گنگا کے باہر ادا کی جائیں۔ لکڑی کے بے تحاشا جلاؤ اور جزوی طور پر جلی لاشوں کی وجہ سے دریا میں آلودگی کی سطح بہت بلند ہو چکی ہے۔
نیشنل گنگا ریور اتھارٹی کے مطابق اس دریا میں زہریلے مادے اور خطرناک بیکٹیریا کی تعداد ڈبلیو ایچ او کے معیار سے تین ہزار گنا بڑھ چکی ہے۔
اندازوں کے مطابق روزانہ 60 ہزار ہندو خود کو گناہوں سے پاک کرنے کے لیے گنگا میں نہاتے ہیں۔