بنوں ’امن مارچ‘ میں فائرنگ: ایک شخص ہلاک، درجنوں افراد زخمی
19 جولائی 2024پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد متعدد قبائلی اضلاع میں ''امن پاسون‘‘ یعنی امن مارچ کے عنوان سے نئی سیاسی اور احتجاجی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔
اسی تناظر میں بنوں میں آج انجمن تاجران، مذہبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے ایک 'امن مارچ‘ کا انعقاد کیا گیا، جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔
بنوں کی چھ تحصیلوں سے ریلیاں نکالی گئیں، جن کے شرکا بنوں شہر کے مرکزی چوک میں جمع ہوئے جبکہ ان احتجاجی مظاہرین نے ہاتھوں میں سفید پرچم اٹھا رکھے تھے۔
فائرنگ کس کی طرف سے کی گئی؟
عینی شاہدین اور حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کا احتجاج اس وقت پرتشدد ہوا، جب مظاہرین ایک فوجی تنصیب کی دیواروں تک پہنچ گئے اور پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔
بنوں پریس کلب کے جنرل سیکریٹری عبدالسلام بیتاب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چوک میں جگہ کم ہوئی تو مظاہرین کو بنوں اسپورٹس کمپلیکس میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وہاں سے مظاہرین بنوں کینٹ کی طرف بڑھے۔ اسی دوران فائرنگ کا واقعہ پیش آیا اور بھگدڑ مچ گئی۔‘‘
پشاور کے قریبی شہر میں ایک انٹیلی جنس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’انہوں نے فوج کے خلاف نعرے لگائے اور کچھ نے تنصیب کی دیوار پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں فوج نے ہوائی فائرنگ کی، جس سے بھگدڑ مچ گئی۔‘‘
صوبائی وزیر صحت عامہ پختون یار کے مطابق ان مظاہروں کے نتیجے میں کم از کم ایک شخص ہلاک ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں فوج پر فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
پختون یار نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ریلی کے دوران مجھ پر اور میرے قریب کھڑے لوگوں پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں۔ یہ صرف ہوا میں فائرنگ نہیں کی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد ہمیں مارنا تھا۔‘‘
عبدالسلام بیتاب نے مقامی ہسپتال کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس واقعے کے نتیجے میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور کم از کم 26 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
بنوں کے سرکاری ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے جبکہ زخمیوں کو بھی اسی ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک اس حوالے سے کوئی باقاعدہ سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔
مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں اور امن مارچ کا انعقاد کیوں؟
ان مظاہرین کے دو واضح مطالبات ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے علاقے میں امن چاہتے ہیں۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت علاقے میں موجود ''اچھے اور برے عسکریت پسندوں‘‘ کے مابین فرق ختم کرے۔
یاد رہے کہ ان علاقوں میں پاکستانی طالبان کی سرگرمیاں اور پاکستانی فوج کے خلاف حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حکومت پاکستان نے حال ہی میں ان کے خلاف ایک فوجی آپریشن کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مظاہرین اس فوجی آپریشن کے بھی خلاف ہیں۔
مظاہرین میں شامل جمال الدین وزیر کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’20 سال سے فوجی کارروائیاں جاری ہیں، پھر بھی امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔ فوجی آپریشن کبھی بھی امن کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔‘‘
''امن پاسون‘‘ سلسلے کی آج پہلی ''امن ریلی‘‘ تھی، جس میں مظاہرین ''ہمیں امن چاہیے‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس جلسے میں لیڈنگ پوزیشن گو کہ پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کی ہے مگر اس میں تقریباً تمام مقامی سیاسی جماعتوں کے کارکن، کاروباری طبقے اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل ہیں۔
ابھی چند روز پہلے ہی پاکستان سکیورٹی فورسز نے بنوں کینٹ کے علاقے میں طالبان کے ایک مربوط حملے کو ناکام بنایا تھا۔ بنوں کینٹ کے وسیع و عریض علاقے میں بالخصوص فوج کے دفاتر اور سکیورٹی فورسز کی رہائش گاہیں ہیں۔ تاہم اس حملے میں کم از کم آٹھ سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔