بنگلہ دیش: سیاسی تصادم اور خونریزی کا خطرہ
21 اکتوبر 2013بنگلہ دیش میں اگلے سال 24 جنوری کو عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان پارلیمانی انتخابات سے قبل وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد ملک میں ایک نگران لیکن آل پارٹیز حکومت کے قیام کی خواہش مند ہیں۔ انتخابات کا کامیاب اور غیر جانبدارانہ انعقاد اسی عبوری حکومت کی ذمہ داری ہو گا۔
لیکن ڈھاکا میں حکمران جماعت عوامی لیگ کے ان ارادوں کے برعکس اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کا مطالبہ ہے کہ اگلے عام الیکشن بھی حسب روایت ایک غیرجانبدار عبوری حکومت کی نگرانی میں کرائے جائیں۔ سابق وزیراعظم اور اپوزیشن پارٹی بی این پی کی رہنما خالدہ ضیا کا کہنا ہے کہ حکومت کو ملک میں اپنی جگہ ایک غیرجانبدار عبوری انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کو یقینی بنانا چاہیے۔
اس کے علاوہ 24 جنوری سے تین ماہ پہلے موجودہ حکومت کو اقتدار سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ موجودہ عوامی لیگ حکومت کو اسی ہفتے 24 اکتوبر تک اقتدار ایک عبوری حکومت کے سپرد کر دینا چاہیے۔
وزیراعظم شیخ حسینہ اس مطالبے سے اتفاق نہیں کرتیں اور ایک وسیع تر قومی حکومت کے قیام کی حامی ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حکومت 24 اکتوبر تک اقتدار سے علیحدہ نہ ہوئی تو 25 اکتوبر سے پورے ملک میں مسلسل عوامی احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے جائیں گے۔
ممکنہ سیاسی تصادم کے اس ماحول میں نہ صرف عوامی لیگ اور بی این پی سمیت اپوزیشن جماعتوں کے مابین شو ڈاؤن کا خطرہ ہے بلکہ اس بارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ یہ تنازعہ آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
خبر ایجنسی روئٹرز نے اس بارے میں ڈھاکا سے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سیاسی ماحول کے کشیدہ ہوتے جانے کے ساتھ ساتھ یہ امکان بھی ہے کہ اس طرح ملک کی گارمنٹس ایکسپورٹ کی صنعت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ 160 ملین کی آبادی والے ملک بنگلہ دیش کی معیشت کے لیے گارمنٹس کی یہ برآمدی صنعت اس لیے انتہائی اہم ہے کہ اس کے ساتھ لاکھوں کارکنوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔
اقتصادی ماہرین کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ گارمنٹس کی برآمد کی ملکی صنعت کا حجم 22 بلین ڈالر بنتا ہے۔
شیخ حسینہ کی طرف سے الیکشن سے تین ماہ قبل اقتدار سے علیحدہ ہونے سے انکار کے بعد اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا نے یہ دھمکی بھی دے دی ہے کہ ان کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ایسی صورت میں جنوری کے الیکشن کا بائیکاٹ بھی کر سکتی ہے۔ بی این پی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ملکی سیاسی حالات مکمل جمود کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’اگر حکومت ہمارے مطالبات کو نظرانداز کرتی ہے، تو پھر متبادل کیا رہ جاتا ہے۔‘‘ اپوزیشن جماعت بی این پی نے اس سلسلے میں اپنی پہلی احتجاجی ریلی جمعے کے روز ڈھاکا میں منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اس ریلی کے بارے میں پارٹی کے ایک رہنما نے تو کارکنوں سے یہ بھی کہا کہ انہیں ‘‘ہتھیاروں سے مسلح’’ ہو کر اس ریلی میں حصہ لینا چاہیے۔ فیکٹریوں میں کئی بہت بڑے اور ہلاکت خیز حادثات کا شکار رہی ہے بلکہ پچھلے کئی دنوں کے دوران گارمنٹس فیکٹریوں کے ہزار ہا ہڑتالی ملازمین بھی مظاہرے کرتے رہے ہیں۔