1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کی قانونی حیثیت: عدالتی فیصلہ آج متوقع

مقبول ملک1 اگست 2013

بنگلہ دیش کی ایک عدالت اس بارے میں اپنا فیصلہ متوقع طور پر آج جمعرات کے روز سنائے گی کہ ملک کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19Hyq
MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images)
تصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

وکلاء کے مطابق ممکن ہے کہ جماعت اسلامی کے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی بھی لگا دی جائے۔

ڈھاکا سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ہائی کورٹ کی طرف سے فیصلہ اس بارے میں سنایا جائے گا کہ آیا جماعت اسلامی کو ریاستی قوانین سے مطابقت رکھنے والی ایک پارٹی کے طور پر کام کرتے رہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ مقدمے کی بنیاد اس پارٹی کے خلاف دائر کی جانے والی وہ درخواست ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس مذہبی سیاسی جماعت کا منشور مبینہ طور پر بنگلہ دیشی آئین سے متصادم ہے۔

EPA/ABIR ABDULLAH
سیکولر مظاہرین کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ 1971ء کی آزادی کی جنگ میں جماعت اسلامی کے کردار کی وجہ سے اس پارٹی پر پابندی لگائی جانی چاہیےتصویر: picture-alliance/dpa

اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا کوئی بھی ممکنہ فیصلہ پہلے ہی سے داخلی کشیدگی کے شکار اس ملک میں نئے عوامی مظاہروں کی وجہ بن سکتا ہے۔ یہ صورت حال اس لیے بھی باعث تشویش ہے کہ بنگلہ دیش کو 1971ء کی آزادی کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام میں ایک خصوصی عدالت کی طرف سے جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف سنائے جانے والے حالیہ فیصلوں کے بعد سے ریاستی تاریخ کے جن خونریز ترین مظاہروں کا سامنا رہا ہے، ان کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔

اس مقدمے میں درخواست دہندہ کے وکیل شیخ رفیق الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ جماعت اسلامی کا منشور 2010ء سے نافذ سیکولر ریاستی آئین کی اس طرح نفی کرتا ہے کہ اس منشور میں اللہ کی حکمرانی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی حمایت کی گئی ہے۔

شیخ رفیق الاسلام کے بقول اگر عدالت نے اپنے فیصلے میں جماعت اسلامی کی سیاسی رجسٹریشن منسوخ کر دی تو یہ پارٹی موجودہ انتخابی قوانین کے تحت ملک میں آئندہ کسی بھی قسم کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گی۔

اس کے برعکس وکیل صفائی تاج الاسلام کا کہنا ہے کہ مذہبی نظریات کی حامل اس سیاسی جماعت کے منشور کی کوئی بھی شق بنگلہ دیشی آئین سے متصادم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جماعت اسلامی کی رجسٹریشن منسوخ کی گئی تو پھر 28 دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی خود بخود اسی طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بنگلہ دیش میں سیکولر مظاہرین کی طرف سے طویل عرصے سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ 1971ء کی آزادی کی جنگ میں جماعت اسلامی کے کردار کی وجہ سے اس پارٹی پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ تب جماعت اسلامی نے سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کی پاکستانی ریاست سے علیحدگی کی مخالفت کی تھی۔

بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران قتل عام اور جنسی زیادتیوں سمیت کئی طرح کے جنگی جرائم میں ملوث رہنے رہنے کے الزام میں موجودہ ملکی حکومت کے قائم کردہ ایک متنازعہ کرائمز ٹریبیونل میں جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کے خلاف مقدمات کی سماعت جاری ہے۔ چار واقعات میں جماعت اسلامی کے مختلف رہنماؤں کو سزائے موت بھی سنائی جا چکی ہے۔ ان عدالتی فیصلوں کے بعد ملک میں جو وسیع تر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے، ان میں کم از کم 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ اس کی اعلیٰ قیادت کے خلاف یہ عدالتی کارروائی اس پارٹی کو ختم کرنے کی حکومتی کوشش ہے جو کہ ملک کی ایک بڑی اپوزیشن طاقت ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید