بون ماحولیاتی کانفرنس بھی تنازعات کی شکار
10 اپریل 2010واشنگٹن انتظامیہ رواں برس منعقد کئے جانے والے ماحولیاتی مذاکرات کی بنیاد کوپن ہیگن کے اجلاس پر رکھنا چاہتی ہے جبکہ چین کا مؤقف ہے کہ اس بات کا تعین اقوام متحدہ کے مسودوں کے تناظر میں کیا جائے۔ خیال رہے کہ امریکہ اور چین کا شمار دُنیا میں کاربن کے اخراج کے ذمہ دار بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔
بون میں امریکی مذاکرات کار جوناتھن پیرشنگ نے کہا، ’ہم کوپن ہیگن سمٹ کو ایک اہم سنگ میل خیال کرتے ہیں۔ اس وقت طے پانے والا معاہدہ کوئی غیر رسمی سمجھوتہ نہیں تھا۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں مزید مذاکرات کا انحصار اسی معاہدے پر ہونا چاہئے۔‘
چین کے مذاکرات کار سُو وِی کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کوپن ہیگن اور 2007ء میں بالی کے ماحولیاتی مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدے اختلافات کا شکار رہے، اس لئے آئندہ مذاکرات کے لئے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی مسودوں کو بنیاد بنایا جانا چاہئے۔
بون کانفرنس گزشتہ برس دسمبر میں کوپن ہیگن کے ماحولیاتی اجلاس کے بعد اس موضوع پر رکھی گئی پہلی نشست ہے، جس کے پہلے ہی روز صورت حال پیچیدہ ہو گئی۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق 175ممالک کے درمیان ہونے والے ان مذاکرات کے دوران بیشتر مندوبین کا کہنا ہے کہ پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لئے کوششیں کی جائیں۔
کوپن ہیگن طرز کی آئندہ بڑی ماحولیاتی کانفرنس کا اہتمام رواں برس کے اواخر میں میکسیکو کے شہر کینکن میں کیا جا رہا ہے۔ تاہم بون کانفرنس کے بعض مندوبین نے خدشہ ظاہر کیا کہ کینکن اجلاس کے موقع پر بھی کوئی ٹھوس معاہدہ سامنے نہیں آ سکے گا۔
کوپن ہیگن سمٹ میں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لئے کوئی ٹھوس معاہدہ نہیں ہو سکا تھا۔ اُس کانفرنس کے موقع پر طے پانے والے معاہدے کو 120 ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ اس میں عالمی حدت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم اس معاہدے میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ کام کیسے کیا جائے گا۔ اس معاہدے میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لئے ترقی پذیر ممالک کو سالانہ ایک کھرب ڈالر فراہم کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: گوہر نذیر گیلانی