بھارت اور امریکا کے مابین اہم دفاعی معاہدہ طے پا گیا
6 ستمبر 2018امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع جیمس میٹس نے اپنے بھارتی ہم منصب بالترتیب سشما سوراج اور نرملا سیتارمن کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آج بدھ کو ہوئی بات چیت کو ’مثبت‘ اور معاہدے کو ’تاریخی‘ قرار دیا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جون 2017ء میں ’ٹو پلس ٹو‘ مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ بات چیت کا پہلا دور تھا۔ گوکہ اسے مارچ میں ہی ہونا تھا تاہم اسے دو مرتبہ ملتوی کیا گیا اور اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی۔
جس معاہدہ پر دونوں ملکوں نے آج دستخط کئے ہیں، اس سے اب بھارت کو اعلیٰ دفاعی ٹیکنالوجی اور ساز و سامان حاصل کرنے میں کافی مدد ملے گی۔ پومپیو نے اس معاہدہ کو باہمی تعلقات میں ایک اہم قدم قرار دیا۔ قبل ازیں بھارت ایک عرصے تک اس معاہدےکے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ بھارت نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس معاہدے سے اس کی انٹیلی جنس معلومات تک امریکا کی رسائی ہو جائے گی۔ بھارت مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے بعد پہلا ملک ہے، جس کے ساتھ امریکا نے ’مواصلاتی موافقت وسلامتی‘ کا معاہدہ کیا ہے۔
اس معاہدے کے حوالے سے اسٹریٹیجک امور کے ماہر راجیو شرما نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اس میں دو رائے نہیں کہ امریکا اب روس کے بعد بھارت کو ہتھیاروں کی سپلائی کرنے والا دوسرا سب سے بڑ ا ملک بن چکا ہے۔ ایسے میں مذکورہ معاہدہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔‘‘ راجیو شرما کا مزید کہنا تھا ’’مواصلاتی موافقت وسلامتی کا معاہدہ (کوم کاسا) کے بعد اب روس سے ایس 400 سطح سے فضا میں مار کرنے والا میزائل سسٹم خریدنے پر بھارت کے خلاف امریکی پابندی عائد ہونے کا امکان کم ہوگیا ہے۔‘‘ خیال رہے کہ امریکا نے روس پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اگر کوئی ملک اس سے دفاع یا انٹیلی جنس سیکٹر میں کسی طرح کا معاہدہ کرتا ہے تو امریکا اس پر بھی پابندی لگا سکتا ہے۔
راجیو شرما کا کہنا تھا کہ بھارت کے ایران سے خام تیل کی خریداری کی صورت میں بھی امریکا کی طرف سے پابندی کا خدشہ کم ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ چین کے بعد بھارت ایران سے سب سے زیادہ خام تیل خریدتا ہے اور وہ ایران کے خلاف عائد پابندیو ں کے مدنظر امریکا سے اس معاملے میں چھوٹ چاہتا ہے۔
امریکا کی ’بھارت کو مسلح گارڈیئن ڈرون فروخت کرنے‘ کی پیشکش
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حالیہ برسوں میں بھارت اور امریکا کے درمیان قربت میں اضافہ ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا ایک سبب ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور بحر ہند کے ملکوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو قابو میں رکھنا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت اور امریکا کے وزرائے خارجہ نیز دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کے درمیان ہاٹ لائن قائم کرنے پر رضامندی ہو گئی ہے۔ دونوں ملکوں نے بھارت کے مشرقی ساحل پر آئندہ سال مشترکہ فوجی مشق کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ جس میں بری، بحری اور فضائیہ تینوں افواج حصہ لیں گی۔
بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کا نام لئے بغیر کہا، ’’ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کی دسویں برسی پر ہم اس کے ذمے داروں کو سزا دلانے کے لئے تعاون میں اضافہ کرنے پر متفق ہوئے ہیں۔‘‘ ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے لئے بھارت پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ سشما سوراج نے مزید کہا، ’’ ہم سرحد پار دہشت گردی کی حمایت پر پاکستان کی پالیسی کے خلاف امریکی موقف کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا، ’’بھارت لشکر طیبہ کے انتہاپسندوں کو گلوبل ٹیرارسٹ کی فہرست میں ڈالنے کا خیر مقدم اور صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی کی بھی حمایت کرتا ہے۔‘‘
بھارت روسی ہتھیار خریدے سے باز رہے، امریکی حکام
بھارتی وزیر دفاع سیتارمن نے بتایا کہ دونوں ملکوں نے امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن طریقے سے تعاون میں اضافہ کرنے کا عہد کیا تاکہ لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کی امیدیں پوری کی جا سکیں۔ انہوں نے کہا، ’’ ہم دہشت گردی کے خلاف اور سلامتی کو درپیش ہر چیلنج کا ایک دوسرے سے مل کر مقابلہ کریں گے۔‘‘ اس سلسلے میں دونوں ملکوں نے ہدف حاصل کرنے کے طریقہ کار پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
بھارت اور امریکا کے رہنماوں کی آج کی ملاقات کے بعد نئی دہلی کو امید ہے کہ ان کا نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ سشما سوراج کا کہنا تھا، ’’بھارت اور امریکا نے نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھارت کی رکنیت جلد سے جلد یقینی بنانے کے لئے مل کر کام کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے۔‘‘
آج کی میٹنگ کے حوالے سے اسٹریٹیجک امور کے ماہر راجیو شرما کا کہنا تھا، ’’بھارت اور امریکا کے درمیان باہمی تعاون اور دفاع کے سیکٹر میں دونوں کی شراکت ایک دوسرے کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے اور اعتماد کرنے کا مظہر ہے۔ آج بھارت دفاع کے شعبے میں امریکا کے ساتھ جتنا کام کر رہا ہے، اتنا کسی دوسرے ملک کے ساتھ نہیں کر رہا ہے اور پچھلے چند برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی پالیسی مستحکم ہوئی ہے۔‘‘
دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ اور امریکی وزیر دفاع نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی ہے۔