1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی حکومت کو شاید ہماری موجودگی پسند نہیں، ایمنسٹی

مرلی کرشنن، نئی دہلی
2 اکتوبر 2020

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مبینہ حکومتی جبر کے تحت بھارت میں اپنا آپریشن بند کر دیا ہے۔ سرگرم کارکنوں کا خیال ہے کہ اس طرح بھارتی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تفتیش کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3jKVN
Indien Amnesty International Kaschmir
تصویر: Mukhtar Khan/AP Photo/picture alliance

انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل انتیس ستمبر کو بھارت میں اپنے آپریشن کو مجبوراً روک دیا تھا۔ تنظیم کے مطابق اسے حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن اور ڈرانے دھمکانے کا سامنا تھا۔  دفتر کی بندش پر بھارتی انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے شدید رنج اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے مجموعی صورت حال کو افسوسناک قرار دیا۔

’صورتحال سنگین ہو چکی تھی‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارتی دفتر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اوینیش کمار کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ انہیں سنگین صورت حال کا سامنا تھا۔ ان کے بقول بھارتی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے حکم پر ان کی تنظیم کے بینک اکاؤنٹس کو منجمند کر دیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظیم کو اپنے دفتر کے ایک سو پچاس افراد کو جبراً فارغ کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی حمایت میں جاری مہم اور ریسرچ ورک کو بھی معطل کرنے کا کہا گیا تھا۔

Indien Amnesty International
تصویر: Aijaz Rahi/AP Photo/picture-alliance

دور رکھنے کی کوشش

 ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھارت کے مختلف شہروں کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت انہیں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کی تفتیش اور معلومات جمع کرنے سے دور دھکیلنے میں مصروف ہے۔

اس تناظر میں اوینیش کمار نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل ایک ایسی تنظیم ہے جس کا مقصد ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنا ہے اور ان کو جن حالات کا سامنا تھا، ان سے محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کو اس تنظیم کا آواز بلند کرنا پسند نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے: بابری مسجد انہدام کیس فیصلہ: ملزمان کی فتح یا انصاف کا خون

بھارتی وزارت داخلہ کا موقف

نئی دہلی سے وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ میں رقوم کی ترسیل غیر ملکی سرمایہ کاری کے قانون (FDI) کے تحت بھیجی جا رہی تھی اور ایک غیر حکومتی اور غیر منافع بخش تنظیم کو اس کی اجازت نہیں ہے۔

وزارت داخلہ نے یہ بھی کہا کہ ایمنسٹی کا یہ دعویٰ کہ انسانی حقوق کے گروپوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، صداقت پر مبنی نہیں ہے۔ مزید کہا گیا کہ ایمنسٹی کو کئی دوسری تنظیموں کی طرح انسانی امداد کا کام جاری رکھنے کی اجازت ہے لیکن ملکی قانون کے تحت اسے انتظامی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔

Indien Büros von Amnesty International
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Rahi

ڈرانے دھمکانے کی پالیسی

دوسری جانب بھارت میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی کو شدت سے اُس بھارتی حکومتی عمل کا سامنا تھا، جس کا مقصد جابرانہ قوانین کے تحت اس کے انسانی حقوق سے متعلق آپریشن کو متاثر کرنا تھا۔

اس مقصد کے لیے بھارت میں قائم ہندو قوم پرست حکومت نے غیر ممالک سے سرمائے کی ترسیل کے ضابطوں (FCRA) میں اپنی مرضی کی ترمیم بھی کی ہے۔ ہیومن رائٹس گروپوں کا کہنا ہے کہ ان ترامیم کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور یہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو دبانے میں حکومت کو مدد دیں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس ترمیم کا ایک اور مقصد سول سوسائٹی کے متحرک کارکنوں کی غیر ملکی امداد تک رسائی کو محدود کرنا بھی ہے۔

مزید پڑھیے: یوپی میں ایک اور دلت لڑکی کا اجتماعی ریپ اور موت

مودی حکومت کے اقدامات کی مذمت

بدھ تیس ستمبر کو پندرہ مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی اقدامات کی سخت مذمت کی ہے۔ ان تنظیموں کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ مودی حکومت غیر حکومتی تنظیموں کو کنٹرول میں لا کر سماجی معاملات کو بھی اپنی زیرِ اثر لانے کی متمنی ہے۔

موجودہ بھارتی حکومت کو اس تناظر میں دیگر ملکی سیاسی جماعتوں کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔ گزشتہ برس بھی ایمنسٹی جیسی کئی انسانی حقوق کی تنظیموں مثلاً سب رنگ بھارت، لائرز کولیکٹیو، پیپلز واچی اور نوسارجن ٹرسٹ وغیرہ کو خاص طور پر غیر ملکی فنڈنگ کے قانون ک تحت نشانہ بنایا گیا تھا۔

مرلی کرشنن (ع ح، ع ا، ع آ)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں