یوپی میں ایک اور دلت لڑکی کا اجتماعی ریپ اور موت
1 اکتوبر 2020ریاست اترپردیش کے ہاتھرس میں اجتماعی جنسی زیادتی اور تشدد کے سبب پسنماندہ برادری کی ایک خاتون کے ہلاک ہونے کا معاملہ ابھی سرخیوں میں ہی تھا کہ ریاست کے ضلع بلرام پور میں بھی اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ پیش آيا ہے۔ گزشتہ روز 22 برس کی ایک لڑکی کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گيا تھا جو جمعرات کو اسپتال لے جاتے وقت دم توڑ گئیں۔
سوشل میڈیا پر اس طرح کی خبریں گشت کر رہی ہیں کہ متاثرہ خاتون کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گيا تاہم پولیس نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے متاثرہ خاتون پر تشدد کرنے جیسے کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ حکام کے مطابق اس سلسلے میں ان دو افراد کو گرفتار کر لیا گيا ہے جنہوں نے دوستی کے لیے لڑکی کو اپنے پاس بلایا تھا اور پھر اس کا ریپ کیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کے بعد ملزمین لڑکی کو خود ایک کلینک لے کر گئے تھے تاہم جب طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو انہوں نے متاثرہ لڑکی کو اس کے گھر بھیج دیا۔ اہل خانہ نے بگڑتی حالت دیکھ کر اسے دوبارہ ہسپتال لے جانے کی کوشش کی تاہم راستے میں ہی اس کی موت ہوگئی۔ پولیس کا کہنا کہ شاہد اور ساحل نامی دو نوجوانوں نے متاثرہ لڑکی کو اپنے پاس بلایا تھا اور انہیں کو حراست میں لیا گيا ہے۔
بلرام پور کے ایس پی رنجن دیو ورما کا کہنا تھا کہ گینسڑي پولیس تھانے میں اس واقعے کی شکایت درچ کروائی گئی تھی اور خاندان کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون ایک نجی کمپنی میں کام کرتی تھیں۔ "جمعرات کو وہ دیر رات تک واپس نہیں آئیں اور فون سے بھی کوئی ربطہ نہیں ہو پایا، پھر رات میں وہ ایک رکشے پر واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں گلوکوز کی ڈرپ لگی ہوئي تھی اور حالت بہت خراب تھی۔ انہیں فوری طور پر اسپتال لے جانے کی کوشش کی کئی تاہم راستے میں ہی ان کی موت ہوگئی"
ان کا کہنا تھا کہ کیس درج کر لیا گيا ہے اور تفتیش جاری ہے۔ "اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ دونوں نوجوانوں نے لڑکی کا ریپ کیا اور پھر ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے۔ ہم نے دونوں کر گرفتار کر لیا ہے۔
ریاست کی کئی اپوزیشن جماعتوں نے خواتین کے ساتھ تشدد اور جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات پر قابو نا پانے کی وجہ سے یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت پر نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کیس کو بھی ہاتھرس کی طرح دبانے کی کوشش نہ کی جائے اور متاثرہ خاتون کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔
ریاست اترپردیش کے ضلع ہاتھرس میں چند روز قبل جس 20 سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا وہ زخموں کی تاب نہ لاکر بالآخر دہلی کے ایک اسپتال میں چل بسی تھیں۔ لیکن پولیس نے خاندان والوں کو لاش دینے کے بجائے لڑکی کی آخری رسومات بڑی خاموشی کے ساتھ ادا کردیں۔ پولیس کے اس رویے پر کئی حلقوں کی جانب سے سخت نکتہ چینی ہورہی ہے۔
متاثرہ لڑکی کے اہل خانہ نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا انہوں نے پولیس سے بڑی منت سماجت کی تاہم ان کی ایک بھی نہیں سنی گئی۔ لڑکی کے والد کا کہنا تھا، ''ہم چاہتے تھے کہ آخری رسومات ہندو روایات کے مطابق کریں لیکن ہمارے تمام تر احتجاج کے باوجود اسے جلا دیا گیا۔ انہوں نے لاش ہم سے زبردستی چھین لی۔ ہم تو اپنی بیٹی کا آخری بار چہرہ بھی نہیں دیکھ سکے۔''
بھارت میں انتہائی پسماندہ سمجھے جانے والے دلت خاندان سے تعلق رکھنے والی متاثرہ لڑکی کو نام نہاد اعلی ذات کے لوگوں نے نشانہ بنایا تھا اورجنسی زیادتی کے بعد ان کی زبان کاٹ دی تھی اور پیٹھ کی ہڈیاں توڑ دی تھیں۔ ان کے جسم کے بیشتر اعضاء ٹوٹے ہوئے تھے اور انہیں انتہائی نازک حالت میں دہلی کے ایک ہسپتال میں بھرتی کرا یا گیا تھا۔
جمعرات یکم اکتوبر کو کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی ہاتھرس میں متاثرہ خاندان سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے جنہیں راستے میں پولیس نے روک دیا اور علاقے میں دفعہ 144 کو نافذ کر دیا گيا ہے۔ پولیس حکام نے سماجوادی پارٹی کے ان کارکنان پر بھی لاٹھی چارج کی جو ہاتھرس میں متاثرہ خاندان سے ملنے جا رہے تھے۔
راہول اور پرینکا گاندھی کو یمنا ایکسپریس وے پر روکا گيا تھا جس کے بعد دونوں نے متاثرین سے ملاقات کے لیے پیدل مارچ شروع کیا۔ اس دوران یوپی کی حکومت نے اس پورے علاقے کو سیل کر دیا ہے۔ گزشتہ روز بی جے پی کے کئی سیاسی رہنماؤں نے گاؤں کا دورہ کرکے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی تھی تاہم اب بی جے پی کی حکومت نے وہاں جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔